قومی معیشت:آئی ایم ایف کا انتباہ

July 24, 2017

’’محنت سے حاصل کی گئی بہتری ضائع نہ ہونے دی جائے، اصلاحات رک گئیں تو ترقی کا موقع نکل جائے گا‘‘ پاکستانی معیشت کے حوالے سے گزشتہ روز منظر عام پر آنے والا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا یہ انتباہ حکومت ہی نہیں پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی قابل توجہ ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں آئی ایم ایف کے نمائندے توخیر مروز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات سخت محنت سے مستحکم منصوبوں پر عملدرآمد کے باعث رونما ہوئے ہیں،اصلاحات کا یہ سلسلہ جاری نہ رہا تو اقتصادی استحکام کا عمل کمزور ہوجائیگا۔انہوںنے جاری کھاتے کے بڑھتے ہوئے خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور آمدنی کو بڑھانے کیلئے نتیجہ خیز اقدامات پر زور دیا۔آئی ایم ایف کے نمائندے نے ملک کے اقتصادی حکمت کاروں کو بالکل درست طور پر متنبہ کیا کہ پاکستانی معیشت صرف درآمدات کے انجن پر چل رہی ہے جبکہ برآمدات کا انجن مشکلات کا شکار ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی گزشتہ روز ہی معاشی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کو ادائیگیوں کے توازن کے بگاڑ کے خطرے کا سامنا ہے اگرچہ معاشی ترقی کی شرح اس کے باوجود دس سال کی بلندترین سطح پر ہے۔ان دونوں اداروں کے معاشی جائزوں سے واضح ہے کہ موجودہ دور حکومت میں قومی معیشت میں بہتری کا جو رجحان مسلسل فروغ پذیر تھا وہ حالیہ مہینوں میں منفی اثرات کا شکار ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں بلاشبہ اصلاح اور بہتری کی ضرورت سے مستثنیٰ نہیں ، اس کے باوجود یہ بہرحال حقیقت ہے کہ چار سال پہلے جو ملک چند ماہ کے اندر دیوالیہ ہونے کے یقینی خطرے سے دوچار تھا، وہ ان ہی پالیسیوں کے ذریعے نہ صرف اس صورت حال سے نکل آیا بلکہ معاشی استحکام کی راہ پر اس طرح گام زن ہوا کہ دنیا کے بیشتر معاشی مبصرین اور تجزیہ کار اداروں کی جانب سے نہایت واضح طور پر اس کا اعتراف کیا جانے لگا۔ پاکستان کے اسٹاک مارکیٹ نے چین اور بھارت جیسی مضبوط معیشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور وطن عزیز کو دنیا کی چند سرفہرست ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیا جانے لگا۔یہ کامیابی اس کے باوجود حاصل ہوئی کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی سے انتخابی دھاندلیوں کے نام پر حکومت گرانے کی تحریک شروع کی گئی ،اسے کامیاب بنانے کیلئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا گیا اور امن وامان کی صورت حال کو خراب کرکے غیرجمہوری قوتوں کی جانب سے مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتخابی دھاندلیوں کی شکایت کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے مکمل تحقیقات کے بعد مسترد کردیا جس سے ثابت ہوا کہ یہ تحریک کسی حقیقی بنیاد کے بغیر چلائی گئی تھی ۔اس کے بعد معاشی ترقی کی رفتار میں مزید بہتری شروع ہوئی اور نہایت حوصلہ افزاء نتائج سامنے آنے لگے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے کچھ ہی دنوں بعد پاناما لیکس کا قضیہ اور اس کی بنیاد پر وزیر اعظم کے خاندان کیخلاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ شروع ہوگیا جو یقیناً بے جواز نہیں تھا۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس کی تحقیقات کے طریق کار پر فوری طور پر اتفاق ہوجاتا پھر اس عمل کو کم سے کم مدت میں مکمل کرلیا جاتا اور نتیجہ جو بھی نکلتا آئین اور قانون کے مطابق اس کے تقاضے پورے کردیئے جاتے تو اس سیاسی ہنگامہ آرائی سے بچا جاسکتا تھا جس نے قومی سطح پر بے یقینی کو فروغ دیا اور معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم کم از کم اب اس حوالے سے عدالتی عمل کی تکمیل کے بعد ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ملک کو انتشار اور افراتفری کی کیفیت سے جلد ازجلد نجات ملے ، سیاسی ہنگامہ آرائی ختم ہو اور تمام فریق پرامن طور پر سارے معاملات آئین اور قانون کے مطابق طے کریں تاکہ عشروں کے بعد بحال ہونے والی قومی معیشت از سرنو انحطاط کا شکار نہ ہو کیونکہ ایسا ہوا تو یہ یقیناً ناقابل تلافی قومی نقصان ہوگا۔