خواتین ٹیم میں گروپنگ ورلڈ کپ کرکٹ میں شکست کی وجہ، ہیڈکوچ رپورٹ میں انکشاف

August 02, 2017

کراچی(عبدالماجد بھٹی/ اسٹاف رپورٹر) انگلینڈ میں خواتین ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ پاکستانی کرکٹ ٹیم بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساتوں میچ ہار گئی۔ اس شکست کے پس پردہ کئی کہانیاں ہیں ۔ ٹیم انتظامیہ کے اختلافات ، کپتان اور کوچ میں رابطے کا فقدان اور کپتان ثناء میر کا مخصوص گروپ کو پروموٹ کرنا شکست کی بڑی وجہ بتایا جاتا ہے۔

دس مہینے پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ رہنے والے صبیح اظہر نے ثناء میر اور عائشہ اشعر کے گٹھ جوڑ کو کرکٹ کے لئے تباہ کن قرار دیا ہے۔ اور کہا کہ کوچ کی مشاورت کے بغیر گیارہ رکنی ٹیم منتخب کر لی جاتی تھی۔ ٹیم واضح طور پر گروپنگ کا شکار تھی۔ صبیح اظہر کے سنسنی خیز انکشافات پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کے لئے کھلا چیلنج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نو سال سے منیجر رہنے والی عائشہ اشعر سے جونیئر پلیئرز پریشان تھیں۔ اگر منیجر عائشہ اشعر اور کپتان ثناء میر ، نین عابدی اور جویریہ خان ٹیم کا حصہ رہیں تو پاکستان ٹیم کبھی نہیں بن سکے گی۔

ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کوچ صبیح اظہر کی 14صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم میں ٹیم ورک نہیں تھا۔ ثناء میر میں لیڈر شپ کوالٹی دکھائی نہیں دی ۔ثناء میر کو صبیح اظہر نے اپنی رپورٹ میں بہت زیادہ منفی قرار دیا۔ ان کا الزام ہے کہ ثناء میر کی اپروچ بہت زیادہ منفی ہے۔ ٹیم میٹنگ میں وہ کئی بار اپنی ہی کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کرتیں اور ان پر خدشات ظاہر کرتیں اور حریف ٹیم کی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتیں تھیں۔ اس سے کھلاڑیوں کے حوصلے پست ہوئے۔ کپتان کو ٹیم کے بجائے صرف نین عابدی اور جویریہ خان کی کارکردگی کی فکر تھی۔ تینوں کرکٹرز کو منیجر عائشہ اشعر کی حمایت حاصل تھی۔

کپتان ہمیشہ چاہتی تھیں کہ تینوں میں سے کوئی ایک پریس کانفرنس کرے۔ ہیڈ کوچ صبیح اظہر نے ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے اپنی رپورٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین شہریار خان کو ارسال کردی ہے۔ تاہم شہریار خان کا کہنا ہے کہ میں ذمے داریوں سے سبکدوش ہورہا ہوں۔ اس لئے خواتین کرکٹ میں تبدیلیوں کا اختیار بھی آنے والے چیئر مین کے پاس ہے۔ صبیح اظہر کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کپتان ثناء میر اور عائشہ اشعر کا رویہ ہی ٹیم کی شکست کی سب سے بڑی وجہ بنا۔ صبیح اظہر نے اپنی رپورٹ میں ورلڈ کپ 2021 کی تیاریوں کے لیے ’آپریشن کلین سوئپ‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹیم کی نئی کپتان کے تقرر کے ساتھ ساتھ ٹیم میں نئی نوجوان کھلاڑیوں کی بھی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ انگلینڈ میں ہونے والے ویمنز ورلڈ کپ 2017 میں پاکستان کو جنوبی افریقہ سے 3 وکٹ،میزبان انگلینڈ سے 107 رنز ، روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں 95 رنز، آسٹریلیا سے159 رنز ، نیوزی لینڈ نے 8 وکٹ، ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 19 رنز جبکہ ساتویں اور آخری گروپ میچ میں خود سے کمزور حریف سری لنکا کے خلاف 15 رنز سے شکست ہوئی تھی ۔ ورلڈ کپ میں کپتان ثناء میر بہترین آل راؤنڈ پرفارمنس کے ساتھ ٹیم میں نمایاں رہیں اور انہوں نے 30.60 کی اوسط سے 153 رنز اسکور کیے جبکہ بولنگ کے شعبے میں 51.50 کی اوسط سے 6 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ بیٹنگ کے شعبے میں ناہیدہ خان نے 24.71 کی اوسط سے سب سے زیادہ 173 رنز اسکو کیے جبکہ بولنگ کے شعبے میں اسماویہ اقبال 8 وکٹیں حاصل کرکے ٹیم میں سر فہرست رہیں۔ ویمنز سلیکشن کمیٹی کے سربراہ اور سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد الیاس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کرکٹ کا مستقبل نوجوان کھلاڑیوں سے وابستہ ہے اور سینئر کھلاڑیوں کو یہ علم ہوچکا ہے کہ اب ان کے پاس زیادہ وقت نہیں رہا۔ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی مایوس کن ضرور رہی لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ چار میچز ایسے بھی تھے جو پاکستانی ٹیم جیت سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ سے قبل ثنا میر کا بیان آچکا تھا کہ وہ عالمی کپ کے بعد ریٹائر ہوجائیں گی۔ انھیں کپتان برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ بورڈ کرے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کی کوچنگ اور ٹریننگ کا مناسب پروگرام مرتب دیا جائے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ گلگت سے باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئی ہیں جبکہ پہلے کھلاڑی ڈھونڈنی پڑتی تھیں۔