سر رہ گزر

August 06, 2017

ری کنڈیشنڈ کابینہ
وفاقی کابینہ کا نواز شریف پر اعتماد ، اگر کچھ اعتماد بچ گیا ہو تو وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو بھی دے دیا جائے، کیونکہ وہ بھی وفاقی کابینہ کے ڈی جیور قائد ہیں، خدا کا شکر ہے کہ کابینہ بن گئی، امور ریاست چل پڑے، خلا پُر ہو گیا، خواجہ آصف کا خارجہ اور احسن اقبال کا داخلہ سنبھالنے کا فیصلہ اتنا صائب ہے کہ جیسے وزرات خارجہ ہنوز خالی ہے، وزارت داخلہ احسن اقبال کو دینے کا فیصلہ احسن ہے، 43وزراء بھرتی کرنے سے خزانہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا وہ مزید ہلکا پھلکا ہو جائے گا، اصل خوشی یہ ہے کہ جمود ٹوٹا، جمہوریت لولی ہے یا لنگڑی پھر سے چل نکلی ہے، کچھ وزارتیں ایجاد کی گئیں یہ پارٹی کے پیچھے کارفرما تخلیقی ذہانت کی مالک قیادت کا کہنا ہے، مشاہد اللہ خان کلائمیٹ چینج کے وزیر ہوں گے، وزارت عین ان کے جوہر قابل ہونے کی دلیل ہے، کلائمیٹ چینج کر دیں گے جس کی اب جماعت کو ضرورت ہے، حکومت ان کی کابینہ ان کی اور وزیراعظم بھی لگ بھگ ان کا پھر یہ پارٹی کے مفادات کو سامنے رکھ کر کابینہ بنانا کوئی نامناسب اقدام نہیں، سب سے اچھی بات جو وزیراعظم نے کہی وہ یہ کہ تمام منصوبے بدستور جاری رہیں گے، ویسے اب پارٹی اتنی مضبوط اور وسیع و عریض ہو چکی ہے کہ وہ خود کو صرف مسلم لیگ کہہ سکتی ہے، کوئی سابقہ لاحقہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں،بلاشبہ مسلم لیگ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ثابت کر دیا اسے صرف قائد و اقبال کی ضرورت ہے، اور اس کا وزیراعظم اپنی ذات میں وزارت عظمیٰ ہے، پاکستان کوئی مشکل حالات سے نہیں گزر رہا، کیا ہوا اگر راستے اونچے نیچے ہیں عزم تو ہوا رہے، بلکہ موٹر وے ہے، حکومت اپنی مدت پورا کرے گی، اور ہم تو یہ بھی توقع رکھتے ہیں اس مدت کے بعد بھی مدت شروع کرے گی۔
٭٭٭٭
ہم نہیں جھوٹ بتا کر داد سمیٹنے والے؟
صحافت نامہ ہے حقیقت کو اصل حالت میں پیش کرنے کا، اگر حقائق میں کوئی تبدیلی واقع ہو تو تبدیل شدہ صورت دکھانا بھی اس کا فریضہ ہے، جنگ جیو گروپ نے یہی کچھ کیا، مگر شاید تلخیٔ حقیقت لڈو کھانے کے عادی چند لوگوں کو پسند نہیں، بھلا اس میں گروپ کا کیا قصور ہے، یہ تو صحافت نہیں کہ لوگوں کو میٹھے میٹھے جھوٹ بتا کر داد تحسین سمیٹی جائے، صحافت کو لے کر چلتے ہیں میڈیا ہائوسز اور ان کے مالکان، اب اگر مالکان اخبار مفت فراہم کریں، کوئی اشتہار نہ لیں تو صحافت آن روڈ کیسے ہو گی ایک جگہ پڑی گلتی سڑتی رہے گی، اگرکوئی میڈیا ہائوس کاروبار نہیں کرے گا تو کیا صحافی بھوکے نہیں مریں گے، کاروبار کرنا تو سنت ہے، کوئی شجر ممنوعہ نہیں، آج کونسا میڈیا ہائوس کاروبار نہیں کرتا؟ یہ کاروبار ہی تو صحافت کو چلا رہا ہے، میں اپنی بات کرتا ہوں اگر میرا ادارہ مجھے تنخواہ نہ دے تو میرے بچے کیا کھائیں گے؟ کیا میں دعا نہیں کروں گا اور اپنے ادارے کی کاروباری ترقی نہیں چاہوں گا؟ میرے ادارے کا کاروبار جتنی ترقی کرے گا میری مالی حالت سنورے گی اور میں ایک صحافی ہونے کے ناتے اطمینان سے صحافت کروں گا، آج جو کاروبار کی نفی کرتے ہیں اور صرف صحافت کرتے ہیں، وہ اخبار کس کے پیسے سے چلا رہے ہیں، یہ ہے وہ مذموم کاروبار جو کیا جاتا ہے مگر نظر نہیں آتا اور یہ دھوکہ دیا جاتا ہے قوم کو کہ اصل صحافت کے اجارہ دار صرف وہ ہیں۔میڈیا ہائوس کا کاروبار ،کیا یہ کوئی خبر ہے یا خدا کا قہر ہے، جو وہ مول لیتے ہیں، حکومت ایسے میڈیا ہائوسز کا نوٹس لے جن کا کام ہی ایک بڑے اور قدیم میڈیا ہائوس کوبسرگید نا ہے۔
٭٭٭٭
عاصمہ جہانگیر سے اظہار نہ چھین!
پاکستان بار کونسل نے کہا ہے سپریم کورٹ اور فوج کے خلاف کسی بھی مہم کا مقابلہ کریں گے، کیا بار کونسل سے قوم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس خود ساختہ مہم کا پروپیگنڈہ کریں، عاصمہ جہانگیر ایک محترم کہنہ مشق قانون دان ہیں، اگر انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو کونسا آسمان گرایا ہے، یا غضب ڈھا دیا ہے، یہ چن چن کر بات کا بتنگڑ بنانا ہی تو ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے، فیصلہ ہو گیا، عملدرآمد بھی ہو گیا، وزیراعظم بھی بدلے گئے اب مزید بار کونسل کیا چاہتی ہے، اپنی ہی برادری کی بزرگ محترم خاتون قانون دان کو کسی مشکل میں ڈالنے سے کیا مل جائے گا، اگر سپریم کورٹ کے خلاف سازش ہوتی تو یہ تاریخی فیصلہ کیسے آتا، اب ایک محترم خاتون کے خلاف صف آرائی چہ معنی دارد؟ جانے بھی دیں، ان کے کہے پر سپریم کورٹ نے کچھ نہیں کہا پھر یہ عدالت عظمیٰ سے زیادہ عدالت عظمیٰ کے وفا دار کیوں نمبر اسکورنگ اور کردار کشی پر اتر آئے ہیں، وہ جو کہتی ہیں کسی کے اشارے پر یا کسی کے مفاد میں مفاد حاصل کر کے نہیں کہتیں، ساری قوم اور بالخصوص قانون دان حلقے کو معلوم ہے کہ وہ دبنگ حق گو خاتون ہیں، اور خواتین کے لئے بہت کچھ کرتی ہیں، وہ محروم و مظلوم خواتین کے مسائل حل کرتی ہیں انہیں چھینا ہوا حق دلاتی ہیں، سچ بولنے والے اکثر ’’میٹھا کھانے والوں‘‘ کو پسند نہیں ہوتے، وہ آپائے وکالت ہیں، ان کا احترام لازم ہے، عاصمہ جہانگیر کی خدمات کو فراموش کرنا بھی ایک اخلاقی جرم ہے۔