جمی کارٹر کاایک فکرانگیز مضمون...آغا مسعود حسین

July 01, 2012

سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا حال ہی میں امریکی اخباروں میں فکرانگیز مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے موجودہ امریکی قیادت اور اس سے وابستہ اعلیٰ حکام کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ دنیا میں مسلسل اپنی وہ اعلیٰ اقدار کھوتاجارہا ہے جس کی بنیاد پر اس کو دنیا کے لاکھوں عوام انتہائی احترام سے دیکھتے تھے۔ لیکن آج امریکہ کی وہ انسانی اقدار موجود نہیں ہیں خصوصیت کے ساتھ انسانی حقوق کے حوالے سے جس کی بنا پر امریکہ کا ریکارڈ خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔
دراصل امریکہ نے9/11 کے بعد اپنی اقدار کا ڈھانچہ تقریباً بدل دیا ہے، کیوبا کے چھوٹے سے جیل خانے گونتاناموبے میں قیدیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ان کے ساتھ کیا ظلم روا رکھا جارہا ہے۔ حالانکہ ان میں اکثریت کا 9/11 سے دور دور کا واسطہ نہیں تھالیکن اس کے باوجود افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ لاکھوں افراد مارے گئے، زخمی ہوئے اور نقل مکانی کرکے یا تو پاکستان میں قیام پذیر یا پھر ایران میں! نیز پاکستان کو زبردستی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل کیا گیا۔ افغانستان کے علاوہ عراق پر بھی امریکہ نے حملہ کیااور جس بنیاد پر حملہ کیا گیا تھا یعنی مہلک ہتھیاروں کی بازیابی، جن کا عراق کے طول و ارض میں کوئی وجود نہیں تھا۔ صرف عراق میں 10 لاکھ عراقی مارے گئے اور اس سے قبل امریکہ کی ایماء پر اقوام متحدہ کے ذریعے عراق میں معاشی پابندیاں عائد کی گئیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے خصوصیت کے ساتھ دواؤں کی عدم دستیابی کی وجہ سے5 لاکھ بچے بے موت مارے گئے۔
یہ سب کچھ امریکہ کی اعلیٰ قیادت کررہی ہے اور اس منشور کو بھول گئی ہے جس نے بلارنگ و نسل سارے انسانوں کو اپنے گلے لگالیا تھا اور جہاں کہیں بھی ان پر ظلم ہوتا تھا امریکی دانشور اور عوام اس چارٹر کی روشنی میں ظالموں کا محاسبہ کرتے تھے۔ امریکی قیادت نے جنونیت کے ساتھ اوباما انتظامیہ نے ڈرون ٹیکنالوجی کو جنگ کا حصہ بنادیا ہے۔ یہ ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کے خلاف بھی استعمال ہورہی ہے، بغیر پائلٹ کے چلنے والے یہ جہاز بآسانی اپنے ٹارگٹ کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈرون حملوں کی زد میں یمن اور صومالیہ بھی ہیں جہاں بقول امریکہ القاعدہ کے جنگجو چھپے ہوئے ہیں لیکن ان ڈرون حملوں کی وجہ سے جہاں ایک یا چند مطلوبہ دہشت گرد مارے جاتے ہیں وہیں اس کے قریب آباد بہت سے بے گناہ عورت، مرد اور بچے بھی ہلاک ہورہے ہیں۔ ان ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکہ کا پاکستان سمیت ساری دنیا میں چہرہ مسخ ہورہا ہے،نیز جب تک جرم ثابت نہیں ہوجاتا ہے وہ شخص یا افراد معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ آئندہ جہاں کہیں بھی امریکی مفادات پر ضرب پڑے گی اور ان مفادات کے خلاف کسی بھی تحریک کو کچلنے کیلئے ڈرون حملے کئے جائیں گے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اب ناقابل عمل ہوچکا ہے یا پھر امریکہ جان بوجھ کر اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی تکمیل کیلئے اس چارٹر کو پس پشت رکھ کر محض ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک بار پھر دنیا کو اپنے زیراثر رکھنا چاہتا ہے؟ فی الحال تو ایسا ہی معلوم ہورہا ہے کیونکہ اس نے اسرائیل اور بھارت سمیت بہت سے ایسے ممالک کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے جو انسانی حقوق کی پروا کئے بغیر اپنے سیاسی و معاشی مفادات حاصل کرنے کیلئے ہر مزاحمت کو روندتے چلے جائیں گے۔ یہ 21 ویں صدی کا بہت بڑا المیہ ہے اور یہ سب کچھ امریکہ جیسا ملک کررہا ہے جہاں جمہوریت کی جڑیں انتہائی مضبوط اور گہری ہیں امریکہ کے اس طرز عمل پر جمی کارٹر کو بہت افسوس ہورہا ہے اور انہوں نے امریکی اخبارات میں اپنا فکرانگیز مضمون تحریر کرکے امریکی قیادت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ انہیں2012 میں امن کا نوبل پرائز بھی مل چکا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ڈرون حملوں میں جو بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں ان کے لواحقین دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں جس کے انتہائی خراب اور خطرناک اثرات ظاہر ہورہے ہیں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں سے متاثرہ ممالک معاشی و سیاسی طور پر کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے اپنا مضمون ان الفاظ پر ختم کیا ہے۔
"Top intelligence and military officials as well as rights defenders in targeted areas, affirn that the great escalation in drone attacks has turned agreived families towards terrorist organizations, around civilian population against americans and permitted repressive governments to cite such action to justify their own despotic behaviour.