پاکستان کی مدر ٹریسا، رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو

August 10, 2017

رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو 9ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئی، ان کا تعلق عیسائی برادری سے تھا۔

رُتھ فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے مجبوراً فرار ہونا پڑا۔

مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور 1949 میں "مینز" سے ڈگری حاصل کی۔

زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ کو ایک مشنری تنظیم "دختران قلب مریم" تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔

سن 1958ء میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جذام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی اور جب 1960ءکے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا تو انہوں نے یہاں آکر جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھ کر واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔

انہوںنے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک، اپنی جوانی، اپنا خاندان اور اپنی زندگی تک قربان کر دی۔

انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سے فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔

"میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر" کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔

اس وقت تک کوڑھ کو عذاب سمجھا جاتا تھا، لوگوں کا خیال تھا کہ یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے، یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی، ان کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی۔

مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔

کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔

پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی اسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر رُتھ فاؤ، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔

ڈاکٹر رُتھ فائو کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان ، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں جبکہ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

ڈاکٹر رُتھ فائو جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی ہیں اور گزشتہ 56 برس سے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل تھیں، انہیں پاکستان کی"مدر ٹریسا" بھی کہا جاتا ہے۔ رتھ فاؤ طویل علالت کے بعد 10 اگست 2017ء کو 87 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔

ڈاکٹر رُتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ خاتون، اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتےاور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔