سپریم جوڈیشل کونسل نے شاذ و نادر ہی کوئی انتہائی اقدام کیا

August 20, 2017

اسلام آباد (رپورٹ: طارق بٹ) چیف جسٹس آف پاکستان کی قیادت میں 5 رُکنی سپریم جوڈیشیل کونسل ہی واحد آئینی فورم ہے جسے اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو مختلف الزامات پر منصب سے ہٹانے کا اختیار ہے، لیکن جب سے آئین کے آرٹیکل۔

209 کے تحت اس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا، شاذ و نادر ہی ایسا کوئی انتہائی اقدام اُٹھایا گیا ہو۔ 1970ء کی دہائی میں ایسی ایک نظیر کو محفوظ رکھتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی جج کو بے قاعدگی یا بدعملی پر سپریم جوڈیشیل کونسل نے ہٹایا ہو۔ کونسل کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے جس کے تحت کچھ کیسز التواء میں ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشیل کونسل عدالت عظمیٰ کے دو سینئر ترین ججوں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل خان اور سینئر ترین ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی حیثیت سے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی ارکان ہیں۔

مذکورہ آرٹیکل کی شق تین کے تحت سپریم جوڈیشیل کونسل کے ہی کسی رکن کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہے، وہ موجود نہیں یا بیماری یا کسی اور وجہ سے کارروائی کرنے کے قابل نہیں، اگر ایسا رُکن سپریم کورٹ کا جج ہے تو سنیارٹی میں ان کے بعد عدالت عظمیٰ کا جج کونسل کا رُکن کی حیثیت سے جگہ لے گا۔ اگر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ ایسا معاملہ ہو تو اس کے بعد سینئر ترین چیف جسٹس ہی ان کی جگہ لے گا۔

17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ آرٹیکل۔209 میں نمایاں تبدیلی لائی گئی۔ قبل ازیں سپریم جوڈیشیل کونسل ان ہی معاملات پر کارروائی کرتی تھی جس کی صدر نے سفارش کی ہو۔ نومبر 2005ء میں سپریم کورٹ کے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق عوام میں سے بھی کوئی شخص سپریم جوڈیشیل کونسل کے علم میں کسی بے قاعدگی اور بدعملی کو لا سکتا ہے۔ اس حوالے سے انکوائری کے لئے ملنے والی معلومات کونسل کے چیئرمین کو پیش کرنی چاہئے۔

جو مؤقف جاننے کے لئے کونسل کے کسی رکن کو پیش کریں گے۔ اگر ایس جے سی سمجھتی ہے کہ انکوائری کے لئے مناسب مواد موجود ہے تو اسے کارروائی شروع کر دینی چاہئے۔ ایس جے سی ضروری سمجھے معلومات فراہم کرنے والے کو طلب کر سکتی ہے۔

کونسل اگر ایک جج کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلے تو اسے اظہار وجوہ کا نوٹس دیا جانا چاہئے اور 14 دنوں میں اس سے رویّہ کی وضاحت طلب کرنی چاہئے۔ اٹارنی جنرل اور ان کی غیرحاضری میں وہ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ کو ریفرنس چلانے کی ہدایت کریں۔