کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات

September 11, 2017

امن و امان کو برقرار رکھنے، جرائم کی روک تھام کرنے اور ملزموں کی مثبت ذہنی تربیت میں کریمنل جسٹس سسٹم کلیدی کردار ادا کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تفتیش کا ناقص طریق کار اور جیلیں جرائم کی نرسریاں ثابت ہوتی ہیں۔ پولیس کے لامحدود اختیارات اور ملزموں سے مجرموں والا سلوک معاشرے میں مزید بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ عدالت عالیہ بھی اپنے ریمارکس میں بارہا کہہ چکی ہے کہ غیر ضروری گرفتاریاں اور ضمانتیں عدالتوں پر اضافی بوجھ کا سبب بنتی ہیں لہٰذا پولیس اور پراسیکیوشن کے نظام میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ وفاقی حکومت نے وقت کے تقاضوں کے مطابق کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کیلئے تجاویز تیارکی ہیں جن کے تحت ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت 14روز سے بڑھا کر 30دن کردی جائے گی، اگر ناقص تفتیش کی بنیاد پر کسی ملزم کو عدالتوں سے رہائی ملے گی تو تفتیشی افسر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکے گی۔ مجوزہ پیکیج میں مقدمات جلد نمٹانے کے لئے سماعت کا طریق کار بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الزامات غلط ثابت ہونے پرسیشن جج کو مخالف فریق پر جرمانہ کرنے کا اختیار ہوگا، کسی بھی شخص کو گرفتاری کی وجوہات سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کرنا لازم ہو گا، وکلاء کے مس کنڈکٹ پر ججوں کو کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا۔ مزید برآں گواہ کے دستخط شدہ تحریری بیان کے ساتھ ساتھ ویڈیو ریکارڈنگ کی تجویز بھی دی گئی جبکہ مقدمہ میں فرانزک اور ڈیجیٹل شواہد کو بھی اہمیت حاصل ہوگی۔ تمام تجاویز مزید مشاورت کیلئے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کو بھجوا دی گئی ہیں، صوبوں کے فیڈ بیک کے بعد ترامیم کو حتمی شکل دی جائے گی۔ تجاویزمیں سندھ اور بلوچستان میں پولیس آرڈر2002ء کی بحالی، تمام صوبوں میں پولیس قوانین میں یکسانیت، ملزم کی ریڈ بک کے ذریعے شناخت کو قانونی حیثیت دیئے جانے، گواہان کے تحفظ کے لئے موثر قانون سازی، جیل ایکٹ اور جیل مینوئل میں ترامیم کا بھی کہا گیا ہے۔یہ یقیناًخوش آئند پیش رفت ہے، جس سے امن عامہ کی صورت حال کی بہتری میں مدد ملے گی۔