اسلام آباد آتشزدگی:اتفاقیہ یا دانستہ؟

September 12, 2017

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اہم علاقے ریڈ زون میں وزارت صنعت کی5منزلہ عمارت عوامی مرکز میں اتوار کی صبح اچانک آگ لگنے سے وفاقی ٹیکس محتسب اور نجکاری کمیشن سمیت40سرکاری و تجارتی کمپنیوں کا قیمتی اور حساس ریکارڈ جلنے اور اربوں روپے کے نقصان کا سانحہ حکومت کے متعلقہ اداروں کی غفلت اور لاپروائی کے حوالے سے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے جن کا جواب ماضی میں اسی نوعیت کے افسوس ناک واقعات کی تحقیقات بے نتیجہ رہنے کی روایت کے سبب شایدہی مل سکے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ سے لگی، جانیں بچانے کی کوشش میں عمارت کی چوتھی منزل سے کودنے والے دو نوجوان جاں بحق ہو گئے فائر فائٹرز کے تاخیر سے پہنچنے اور آگ بجھانے کے آلات ناکارہ ہونے کی وجہ سے شعلوں نے پوری بلڈنگ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس پرقابو پانے میں کئی گھنٹے لگے۔ واقعے کی تحقیقات کے لیے وزارت صنعت و پیداوار اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد نے دو الگ الگ کمیٹیاں قائم کر دی ہیں۔ آتش زدگی کے ایسے واقعات اس سے پہلے کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں بھی پیش آچکے ہیں اور اسلام آباد میں بھی ایک بڑے ہوٹل میں کچھ عرصہ پہلے خوفناک آگ بھڑک چکی ہے۔ کراچی میں کچھ عرصہ قبل بلدیہ ٹائون کی ایک فیکٹری میں آگ لگی جس سے تین سو افراد لقمہ اجل بن گئے۔ لاہور میں ایک کمرشل پلازہ اور ایک فیکٹری میں آتش زدگی سے درجنوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں اس کے علاوہ بھی ملک کے کئی بڑے شہروں میں آگ تباہی مچاتی رہی اور ہر موقع پر یہی بات سامنے آئی کہ آگ بجھانے کے انتظامات ناقص تھے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آگ عموماً اس جگہ لگتی ہے جہاں کسی نہ کسی طرح کا حساس مالی ریکارڈ ضائع کرانا مقصود ہوتا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر کا نہایت اہم ریکارڈ جلنا اتفاقیہ آگ کا نتیجہ ہے یا یہ دانستہ کارروائی ہے۔ کیا اس کا تعلق ٹیکس چوروں اور کرپٹ لوگوں سے ہے؟ اس سوال کا جواب شفاف تحقیقات سے ہی مل سکتا ہے۔ آتش زدگی کے علاوہ بھی ایسے سانحات مسلسل پیش آرہے ہیں۔کراچی کی ساحلی تفریح گاہ ’’ہاکس بے‘‘ پر لائف گارڈز اور دوسرے انتظامات موثر نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے 12افراد گزشتہ روز سمندر کی نذر ہو گئے 2014 میں ایسے ہی ایک واقعے میں21افراد ڈوب گئے تھے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً ساڑھے 16ہزار افراد آگ لگنے کے واقعات میں ہلاک اور پونے دو لاکھ زخمی یا معذور ہو جاتے ہیں۔ چار کھرب روپے کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ابھی تک نیشنل فائر سیکورٹی پالیسی نہیں بنائی، نیشنل فائر سیفٹی اینڈ ایمرجنسی رسپانس پالیسی جو بیرونی ملکوں میں تقریباً ہر جگہ نافذ ہے، بنانے سے یہ نقصان ختم نہیں تو بڑی حد تک کم ضرور ہو سکتا ہےلیکن پاکستان میں فائر اینڈ سیفٹی ایکٹ ہی موجود نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ نیشنل ایڈوائزری گروپ آف فائر سیفٹی پالیسی نے2010 میں متفقہ سفارشات تیار کرکے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو پیش کیا تھا۔ اس میں آتش زدگی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے عملی رہنما اصول طے کئے گئے تھے مگر حکومت نے اس کی منظوری ہی نہیں دی جو آگ سے انسانی جانوں اور املاک کے تحفظ کے حوالے سے بے عملی اور بے حسی کی نہایت افسوسناک مثال ہے۔ فائر سیفٹی پالیسی نہ ہونے سے اس قسم کے سانحات اور قدرتی آفات کے دوران اداروں میں عدم تعاون، بدانتظامی اور افراتفری جنم لیتی ہے پھر ایسے واقعات کی تحقیقات کا بھی کوئی واضح نتیجہ کبھی سامنے نہیں آتا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اس طرح کے سانحات روکنے کے لیے موثر پالیسی بنائے اور مستقل جوڈیشل کمیشن قائم کرے جو ہر واقعے کی کھلی، منصفانہ اور دیانتدارانہ تحقیقات کر کے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرنے یا دانستہ ملوث ہونے والے ملزموں کو کڑی سزائیں دے۔ اس کے علاوہ حفاظتی انتظامات موثر بنائے جائیں تاکہ ایسے موقعوں پر جانی و مالی نقصانات سے بچائو کے لیے بر وقت اقدامات یقینی بنائے جا سکیں۔