انتخابی قوانین میں ترمیم

September 24, 2017

جمعہ کے روز پارلیمنٹکے ایوان بالا (سینیٹ) نے انتخابی اصلاحات کے جس بل کی منظوری دی اس سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کیلئے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ایوان بالا نے، جس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے فیصلہ کن طاقت ہونے کا تاثر نمایاں تھا، اپوزیشن کی ان ترامیم کو ایک ووٹکی اکثریت سے مسترد کر دیا، جن کا مقصد موجودہ قانون کی اس شق کو برقرار رکھنا تھا جس کے تحت پارلیمنٹکی رکنیت کیلئے نااہل قرار پانے والا کوئی شخص کسی سیاسی پارٹی کا عہدیدار نہیںبن سکتا۔ الیکٹورل ریفارمز پیکیج پارلیمانی جماعتوں نے تقریباً تین برسوں کی انتھک محنت سے تیار کیا تھا۔241 شقوںپر مشتمل قانون میںچونکہ ایوان بالا نے ترمیم کی ہے اس لئے اب یہ دوبارہ قومی اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا، اورصدر مملکت کی توثیق کے بعد مسلم لیگ (ن) کی یہ خواہش پوری ہوجائے گی کہ نواز شریف کا سیاسی کردار جاری رہے جبکہ اپوزیشن کی کوشش یہ معلوم ہوتی تھی کہ سابق وزیراعظم کا یہ کردار جاری نہ رہے۔ دونوںفریقوں کا منتہائے مقصود ایک فرد کے گرد گھومتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ صورتحال اس بنا پر پیدا ہوئی کہ وطن عزیز میں سیاسی پارٹیاں منشور، نظریات اور پروگراموں کی بجائے شخصیات کے حوالے سے چلتی ہیں اور اسی موروثیت کی طرف جاتی محسوس ہو رہی ہیںجو مسلم اکثریت کے حامل بیشتر ملکوںمیں نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں لوگ پارٹیوں کے منشور دیکھ کر ان میںشامل ہوتے ہیں اور کسی معاملے میں اختلاف رائے پیدا ہو تو پارٹی کے اندر ہی تبادلہ خیال کر کے قیادت تک بدل دینے کے فیصلے کر لئے جاتے ہیں۔ آمریت کے دور میں شامل کی گئی شق کے خاتمے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کا اظہار ہوا اور عمران خان سمیت کئی لیڈروں کے سروںپر لٹکتی ہوئی وہ تلوار ہٹگئی جو الزامات کی صورت میںنظر آرہی ہے۔ مذکورہ آئینی ترمیم سے سیاسی جماعتوںکے استحکام میں مدد ملنے کی توقعات کی جا رہی ہیں جبکہ مستقبل میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اس شق سمیت دوسری شقوں میں ترامیم کی گنجائش موجود ہے۔