بین الاقوامی عدالتوں میں ناکامیاں ؟

September 26, 2017

لندن ہائی کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن کے ایک حالیہ فیصلے میں حکومت پاکستان کو آئی پی پیزکو گیارہ ارب روپے کا بطورہرجانہ ادا کرنے کا حکم اگرچہ بجائے خود ایک سنگین لمحہ فکریہ ہے تاہم یہ محض ایک معاملہ نہیں بلکہ ہمارا ملک مختلف بین الاقوامی کاروباری اداروں کے ساتھ درجنوں تنازعات میں الجھا ہوا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ کشن گنگا اور رتلے پروجیکٹ اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملات اس کے علاوہ ہیں اور ہمیں تقریبا ہر تنازع میں بین الاقوامی عدالتوں کو اپنے موقف پر مطمئن کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔اس کے نتیجے میںایک تازہ ترین رپورٹ کی رو سے آئندہ چند ماہ کے دوران پاکستان کو 85 ارب روپے کا بھاری جرمانہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کو ادا کرنا پڑسکتا ہے۔ بین الاقوامی کاروباری اداروں کے جو تنازعات ثالثی عدالتوں میں ہیں ان میں ترک کمپنی کار کے رینٹل، ریکوڈک مائننگ، پروگیس ایل پی جی،حب کو پاور،سفائر الیکٹرک، بالمور انرجی وغیرہ شامل ہیں جبکہ ایک اور ٹریبونل 9 آئی پی پیز کی جانب سے ہرجانے کے دعوے کی سماعت شروع کرنے والا ہے۔حال ہی میں کار کے رینٹل کو 700 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم بھی ایک ثالثی عدالت جاری کرچکی ہے۔ ان میں سے کئی معاملات بین الاقوامی اداروں کیخلاف ہماری اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی بناء پر عالمی ثالثی اداروں میں پہنچے ہیں اور ہمارے وکلاء اپنی تمام تر قانونی مہارت کے باوجود پاکستان کا موقف منوانے میں ناکام ہورہے ہیں جس کی بناء پر گمان ہوتا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کیخلاف ہمارے فیصلے اور اقدامات قانونی پوزیشن کے بجائے جذبات یا متعلقہ حکام کے سیاسی یا ذاتی مفادات کی بنیاد پر ہوتے رہے ہیں جبکہ اسکے نتیجے میں پیش آنے والی صورت حال پوری قوم کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ ایک طرف ان تنازعات میں اپنا کیس بہتر طور پر پیش کیا جائے جبکہ جہاں ضروری ہو مفاہمت کی کوشش کی جائے اور آئندہ ایسے معاملات میں پوری احتیاط کیساتھ سوچ بچار کرکے فیصلے کئے جائیں۔