سر رہ گزر

October 01, 2017

حوصلہ افزائی بھی کوئی چیز ہے
اچھائی، حسنِ کارکردگی، حسنِ اخلاق کی حوصلہ افزائی سے حُسن میں اضافہ ہوتا ہے اور بُرے کے اچھا بننے کے امکانات وسیع تر ہو جاتے ہیں، یہ خبر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ پنجاب میں 1263میگا واٹ کا ایک اور گیس پاور پلانٹ لگانے کا چینی کمپنی سے معاہدہ اور وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت، افغانستان، ایران کو بھی بجلی فروخت کرنے کے قابل ہوں گے، یہ منصوبہ لوڈ شیڈنگ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا اور اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہو گی کہ لوڈ شیڈنگ کو تابوت میں پیک کر کے اس میں آخری کیل بھی ٹھونک دی جائے گی، البتہ یہ ڈر بھی شاید لگا رہے کہ لوڈ شیڈنگ کا مردہ تابوت کی پھٹی اکھاڑنے میں کامیاب ہو گیا تو سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا، خادم اعلیٰ پنجاب کی ہمت و محنت کو ایک زمانہ مانتا ہے، بلکہ بجلی کی برآمد کے ساتھ ہم اپنے ہر فن مولا امرت دھارا وزیر اعلیٰ کو بھی کرائے پر دے کر بیش قیمت زر مبادلہ کما سکتے ہیں، وہ حالات کی سنگینی میں بھی اپنے کام میں جتے رہتے ہیں، ہر طرف پورا ہونے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر پوری تو خدا کی ذات ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سڑک بن گئی مگر میری گلی کی سڑک ہنوز کچی ہے۔ کوئی بات نہیں ساڈی خیر اے، لاہور کی پختہ سڑکیں شاد رہیں آباد رہیں، پنجاب بڑا بھائی ہے اور چھوٹا بھائی اس کا حکمران، بہر صورت بڑے بھائی کی قدر کریں، چھوٹے بھائی بھی خوش ہو جائیں گے، اپنے ہر دور میں خادمِ پنجاب نے خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اس کے باوجود؎
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
ہرقوم کا ایک حکمران ہوتا ہے وہ اچھا بھی ہو سکتا ہے بُرا بھی، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ شہباز شریف ایک اچھے حکمران رہے ہیں، اور راستے میں پھسلن ہو تو بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں اس پر تالیاں پیٹنا تو ستم ظریفی ہے۔
٭٭٭٭
انٹر نیٹ، جیسے چاہو استعمال کرو
انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد بیخبری رخصت ہو گئی تجاہل عارفانہ باقی رہ گیا، اب کوئی جان بوجھ کر کہے مجھے پتا نہیں تو اس کا پتہ چلائو، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے غالب کے بعض اشعار کو بھی بے اثر کر دیا مثلاً فیس بک کے ہوتے ہوئے اب یہ نہیں کہا جا سکتا؎
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتا سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بَر ملے
ویسے تو غالبؔ کی یہ پوری غزل ہی آئی ٹی کی زد میں آتی ہے لیکن سردست دو اشعار پر ہی اکتفا کرتے ہیں، چہل، مذاق اپنی جگہ لیکن اس سے انکار نہیں کہ انٹرنیٹ سرچشمہ علوم و فنون ہے، گوگل تو علاقہ الدھر ہے جو پوچھو جواب حاضر، کسی لفظ کے معنی سے لے کر تاریخ کے کونوں کھدروں تک اس کی رسائی مسلم ہے، ہم اپنے ایک قاری کی درخواست پر محکمہ ٹیلیفون سے گزارش کرتے ہیں کہ جو تیز رفتار لائنیں پوش علاقوں میں بچھائی ہیں وہ غریب عوامی علاقوں میں بھی پہنچا دیں، قاری نے یہ بھی شکایت کی کہ جو انٹرنیٹ سروس عام علاقوں میں دستیاب ہے اس کی سپیڈ بے دم ہے، اور اس میں رک رک کر چلنے کی ادا عام ہے، اور یہ بھی کہا کہ علاقے کا لائن آپریٹر اگر بات کرنے کو مل بھی جائے تو وہ جو کہانی سناتا ہے اس کی تردید اس کا محکمہ کرتا ہے، انٹرنیٹ سے نوجوان کئی ہنر گھر بیٹھے سیکھ کر اچھی روزی کما لیتے ہیں، مگر یہ جو سست رو انٹر نیٹ ہے یہ ان کے راہ کی بڑی رکاوٹ ہے، حالت یہ ہے کہ غریب نوجوان اپنے ایم بی جس قدر بڑھاتا ہے رفتار اسی رفتار سے کم ہو جاتی ہے، انٹرنیٹ کی فیسیں بھی کم کی جائیں تاکہ علم و ہنر جاننے سیکھنے کا یہ موثر ذریعہ عام ہو، اور عام آدمی کی دسترس میں ہو، اس پر ٹیکس بھی ختم کئے جائیں، یہ کیا وجہ ہے کہ شکایت درج ہوتی ہے رفع نہیں ہوتی؟ فتح گڑھ تا واہگہ انٹرنیٹ صارفین مطمئن نہیں پیسے وہ پورے دیتے ہیں، جواب ادھورے ملتے ہیں محکمہ اپنی کارکردگی بہتر کرے۔
٭٭٭٭
گورکھ دھندا
اب یہ عالم ہے کہ ہر خبر بریکنگ نیوز ہے، تجزیہ کار، دانشور، سیاستدان، حکمران، کنفیوژ ہے، ویسے یہ ایک انسانی تاریخ کے طویل تجربے کی بات ہے کہ جب کچھ سجھائی نہ دے اور ایک گورکھ دھندا کیفیت ہر جگہ نظر آئے تو خوش ہو جائیں کہ کچھ اچھا ہونے والا ہے، ابہام و تبہیم کا ہر شخص شکار ہے مگر بات ہر آدمی اتنی وضاحت و جرأت سے کرتا ہے جیسے اسے حقیقت کا پتا چل گیا ہے، ہر انسان پہلے اپنا الو جنم دیتا ہے اسے شاہین ثابت کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہے، لہجوں میں بیانات میں عالمانہ تکبر کے باعث جہالت پنپ رہی ہے، جہاں علم، آگہی اور حقیقت شناسی ہوتی ہے اس کا پلیٹ فارم عاجزی ہوتا ہے، اگر عجز و نیاز سے اپنا موقف پیش کیا جائے تو انسانی فکر جہانِ عشق میں داخل ہو جاتی ہے اور اس پر سب کچھ کھل جاتا ہے، ہلچل بہت ہے، ہر چیز ہلتی دکھائی دے رہی ہے، مگر دراصل ساکن ہے، جس کی جو فطرت ہے وہ تبدیل نہیں کی جا سکتی، وطن عزیز میں دھوپ چھائوں، اندھیرے اجالے سب گڈ مڈ ہو گئے ہیں کائنات سے زیادہ واضح کوئی چیز نہیں لیکن ہم عدم وضاحت کی لپیٹ میں ایسے آئے کہ کھولے نہ گئے، اور کھوئے ایسے کہ پائے نہ گئے، جھوٹ اور مال حرام معاشروں کا چین چھین لیتا ہے، ایک آدمی جب کئی آدمیوں کا رزق کھانے لگے تو آدم خوری جنم لیتی ہے کراچی کو دیکھیں وہاں ہر آہٹ پر موت کی آمد کا گمان گزرتا ہے، تاحال وہ چاقو زن نہیں پکڑا گیا جس نے خواتین کے محافظ مردوں کا بھی جینا حرام کر دیا ہے، منوانے کا بڑا بڑا ہتھیار تشہیر ہے، اس لئے حق کو تسلیم کرنے کا چلن جاتا رہا، ہم بھی کسی کو منانے کے لئے نہیں خود کو منوانے کے لئے لکھتے ہیں، اور شاید شعوری لاشعوری طور پر ہم سب یہی دھندا کر رہے ہیں، اور یہی تو گورکھ دھندا ہے، لگتا ہے کہ یہاں کسی بڑی خرابی کے بعد کوئی بڑی بہتری آنے کو ہے، کیونکہ گورکھ دھندا علامت ہے کچھ اچھوتا نیا نیارا واقع ہونے کی ؎
ہے دل شویدۂِ غالب طلسم پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
٭٭٭٭
’’چوراں نوں پے گئے مور‘‘
....Oعمران خان:غیر جانبدار چیئرمین نیب نہ بنا تو سڑکوں پر آ جائیں گے،
کیا بنی گالہ قرقی ہو گیا؟
....Oپرویز رشید:کپتان پہلے وزیراعظم اب اپوزیشن لیڈر کل چیئرمین پی سی بی ہوں گے۔
ویسے خدا لگتی بات یہ ہے کہ بوہڑ تھلے پہلے آپ پہنچے ہیں۔
....Oخواجہ آصف 3اکتوبر کو پھر امریکہ جائیں گے،
شاید کوئی کسر رہ گئی ہو گی،
....Oآرمی چیف:ہم نے بہت ڈو مور کر لیا اب دنیا کرے۔
خواجہ آصف:دنیا کا ڈو مور مطالبہ درست ہے،
جبکہ عوامی رائے یہ ہے نو ڈو مور چوراں نوں پے گئے مور