اسلام گفتار سے نہیں، کردار سے غالب ہوا تحریر:علامہ محمد سجاد رضوی…ہیلی فیکس

October 18, 2017

گزشتہ دنوں محرم الحرام کے ایک پروگرام میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی، کربلائے معلی کی زمین کو اپنے خون سے رنگین کرنے والوں کی عظمتوں کا ذکر خیر ہوا، وفا رضا کے تذکرے ہوئے اور جن کی داستان عزیمت کا چرچا ہفتہ افلاک پر ہوتا ہے، ان پاک باز ہستیوں، بالخصوص امام عالی مقام، امام حسین ؓ کے مقام صبر وشہادت کی سعادت سے قلوب واذھان کو روشنی میسر آئی۔ہم سے پیش رو مقرر، برطانوی مسلم کمیونٹی کے حوالے سے امام عالی مقام کے کردار وعمل سے سبق حاصل کرنے پہ زور دے رہے تھے اور ساتھ ہی ان لرزہ خیز اعداد وتناسب کا اظہار بھی کررہے تھے جو منشیات اور دیگر کرائم میںمبتلا ہونے اور نتیجتاً برطانوی جیلوںمیں پابند سلاسل ہونے کے حوالے سے ہمارے جوانوں کی اخلاقی گراوٹ اور تنزلی کی داستان عبرتناک پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت منشیات کے متعلق جرائم میںمبتلا ہوکر جیل کھانے والوںمیں سے سب سے بلند تناسب مسلمانوںکا ہے، لہذا فکر حسینیؓ کے سائے میں اپنے اطفال کی تربیت ضروری ہے اور یہ عمل گھر کی چار دیواری سے لے کر مسجد کی محراب ومنبرتک تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے۔
اس میںکچھ شک نہیں کہ صورتحال نہ صرف دگر گوں ہے بلکہ مسلسل ابتری کی طرف تیزی سے مسفر کررہی ہے اور جہاں کمیونٹی کی شرکت سے ایک جگہ جمع سے وہاں اخلاقی رویوں کی تنزلی بھی زیادہ ظاہر ہے شہروں اور علاقوں کے نام گنوانے سے خواہ مخواہ منفی تاثر عام ہوگا مگر یہ بات یقینی ہے کہ جہاں اسلامی اداروں کی تعداد کثرت سے دکھائی دیتی ہے وہیںیہ بگڑی ہوئی مخلوق کا گراف بھی بلند نظر آتا ہے، کیا ہم کچھ دیر کیلئے سوچ سکتے ہیںکہ عالی شان مساجد، سہولتوں سے آراستہ دینی ادارے، پاکستان سے ہر موسم میںتشریف لانے والے دینی رہنمائوں اور مستقل برطانوی شہریت کے حامل پیران طریقت وراہبران شریعت کا جم غفیر کے باوجود آج جوان نسل اسلامی شعائر سے منہ کیوں موڑے ہوئے ہے اور ہمارے ماہانہ وسالانہ پروگرام کیونکہ ویرانی اور قحط الرجالی کا شکار ہیں۔ جو مرید سادہ اپنے شیخ طریقت کے تصور سے اپنی خلوتوں کو بانور خیال کرتے اور دست وقدم بوسی کی لذتوںسے خوشبوئے جنت تلاش کرتے کرتے، کمر خمیدہ ہوگئے، آج اپنی اولاد کے مقدر سنوارنے اور اپنے سماجی مسائل حل کروانے کی خاطر کس کس کی پھونکوں اور تعویزوں پہ توکل کررہے ہیں، یہ ایک اور قابل مرثیہ داستان ہے۔ اس بات سے انحراف کرنا ناممکن ہے کہ جب بھی ہم پاکستان کشمیر سے آئے ہوئے لوگوں کی نظریاتی اور فکری تاریخ لکھی جائے گی توچیریٹی کے نام پہ ذاتی مفادات کی یلغار، روحانیت کے نام پہ ذاتی معیشت کا استحکام اور مسجد انتظامیہ کے نام پہ ڈکٹیٹر شہ کا اہتمام سر فہرست ہوںگے۔ مسجدوں میں جاسوسی والے کتے اور بوٹوں سمیت پولیس کن لوگوںکی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے آئی اور عالی شان دینی اداروں کے زیرسایہ نوجوان نسل جیلوں کا سامان کیوںبنی؟ یہ سوالات ضرور دہرائے جائیںگے۔ فکر واعتقاد کی دنیا میں ہم اس قدر بے سرمایہ ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی جھاڑ پھونک کے ذریعے ہیں’’ماحول‘‘ بناسکتا ہے، ایسی قوم جس کے اذہان فکر قرانی سے عاری ہوجائیں اور جن کے قلوب سیرت نبویؐ کے نور سے بیگانہ ہوجائیں، توھمات کے چنگل میںآسانی سے پھنس جاتی ہے، وہم انسان کو بزدل بنادیتا ہے کا ہل کر دیتا ہے اور ذہنی غلامی کی طرف لے جاتا ہے آج ہم جس معاشرے کے اندر سانس لے رہے ہیں وہاںروحانیت کے نام پہ جو کاروبار چل رہاہے اسے اسلام اور اسلاف سے جوڑنا، صحابہ کرامؓ کی عملیل زندگی کی توہین کرنے کے مترادف ہے گلوکارول کی زبان سے نعت خوانی، شعبدہ بازوں سے امید شفا روحانیت فروش عاملین سے سند جنت اور جعلی پیرول سے تزکیہ نفس وہ ’’ مذہبی پروڈکٹس‘‘ ہیںجن کے بارے پہ مصرعہ کافی ہے۔
’’ہیںکواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘
ہم فکر امام حسینؓ سے بات شروع کی تھی اور ذکر کیا کہ منبر سے آواز بلند ہوتی ہے کہ کربلا کا پیغام یا د رکھاجائے، اس قربانی کو اپنی نسلوں میں عملی طورپہ راسخ کیاجائے اور صداقت کا پیغام عام کرکے، جرات وشجاعت کی اقدار کو مضبوط کیا جائے، مگر افسوس کہ جب خطیب شہر چند پونڈ کے نذرانے پہ شعبدہ بازوں کی مجلس میں رطب اللسان ہو اور کربلا کے عملی پیغام کو یکسر بھول جائے شریعت وطریقت کی دھجیاں اڑانے والوںکو اپنی لفاظمی کے ساتھ مقام غوثیت پہ کھڑا کردے تو بتلائے کہ ہماری جوان نسل کس کو نمونہ اختیار کرے گی۔ وہ اپنی ذہنی پیچیدگیوں کا حل تلاش کرنے کس کو رہنما مانے گی، جب ہمارے قول وعمل میں میلوں کا فاصلہ ہوگا تو معاشرے کی یہی کیفیت ہوگی جو دکھائی دے رہی ہے۔ خیال کیاجاتا ہے کہ اکثر وبیشتر کی تیسری نسل اس ملک میں پروان چڑھ رہی ہے اور دینی اقدار سے بیگانہ نسل، خود ساختہ اور من گھڑت اعتقادات کو ہی کلی طور پہ اسلام سمجھ رہی ہے، امور مباجات اور اعمال مستحبات کو ہم نے فرض کا درجہ دے دیا اور فرائض و واجبات سے صرف نظر کرکے، قوم کو جاہلوں کا مقتدری بنادیا، آج ہم اپنی نظروں کے سامنے، اپنی اس جوان نسل کی بربادی کی داستانیں سن رہےہیںکہ جس کے لئے حضرت اقبالؒ نے یوں اشک افشانی کی تھی۔
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
یہ صرف میرا ہی خیال نہیں بلکہ آزمودہ بات ہے کہ اگر اس نسل کو سنبھالنا ہے تو اسے قرانی فکر، سیرت وطیبہ کی روشنی میں فراہم کی جائے اور فرسودہ تو ہم پرستانہ اور معیار دین سے کوسوں گرے ہوئے اعصال سے رہائی دلائی جائے، ورنہ عجب نہیں کہ ہماری داستان لکھنے والے، ہماری بربادیوں کے قصے بھی تحریر کرتے رہ جائیں۔