امیرالمومنین کی بارگاہ میں...انداز بیاں …سردارا حمد قادری

October 24, 2017

کوفہ اور نجف اشرف آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دو شہر ہیں۔ نجف کو آپ کوفہ کا مضافاتی علاقہ کہہ سکتے ہیں، آسانی سے سمجھنے کے لیے مثال کے طور پر آپ کوفہ کو راولپنڈی اور نجف کو اسلام آباد سے تشبیہ دے سکتے ہیں، کیونکہ کوفہ بڑا شہر تھا اور نجف اس سے ملحقہ دارالخلافہ، جہاں خلیفہ امیر الومنین سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہ الکریم نظام خلافت سرانجام دیتے تھے۔ یہ وہی نجف ہے کہ جو اہل محبت کیلئے مرکز عزم و یقین ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
کوفہ اور نجف ایک دوسرے سے زمینی رابطے کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہونے کے باوجود اپنی الگ الگ پہچان رکھتے ہیں۔ اپنا علیحدہ تشخص، اپنا ماضی اور اس کی مختلف روایات کے حامل ہیں۔ نجف کا نام آتے ہی ذہن میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کا اسم گرامی اور آپ کا مثالی دور خلافت یاد آتا ہے جب کہ کوفہ اگرچہ علم و حکمت دانش و تحقیق کا مرکز رہا ہے، لیکن اس کے ظالم و جابر نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے ظلم و جبر کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر منفی تذکرے کے ساتھ آتا ہے۔ جہاں بظاہر کلمہ پڑھنے والے حکمرانوں نے عہد جاہلیت کی رسوم کو تازہ کیا۔ جہاں اموی گورنر عبید اللہ ابن زیاد کے حکم سے حضرت مسلم بن عقیل کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
اسی کوفہ کے گورنر ہائوس میں ابن زیاد کے سامنے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اقدس کاٹ کر فاتحانہ انداز میں لایا گیا۔ پھر تاریخ نے اس شاہی عمارت میں آنے والے دور میں مختلف حکمرانوں اور حکومت کے خلاف سیاسی تحریک چلانے والوں کے کٹے ہوئے سر دیکھے۔ بالآخر یہ شاہی محل مسمار کرکے تاریخ میں عبرت کا نشان بنادیا گیا، کیونکہ اس کے کھنڈر اور ماضی کے کچھ آثار ابھی تک موجود ہیں اور خاندان بنو امیہ کے ظلم و ستم کی علامت کے طور پر آج گواہی دیتے ہیں اور دیکھنے والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ظلم و جبر و تشدد کے ذریعے حکمرانی کرنے والے حکمرانوں کا دور حکومت ہی ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان سے منسوب اور منسلک ہر بارگاہ، ہر نشانی بھی آنے والی نسلوں کے لیے مقام عبرت بن جایا کرتی ہے۔ اسی اجڑی ہوئی شاہی عمارت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر وہ مختصر اور باوقار گھر ابھی تک صفحہ ہستی پر موجود ہے جہاں میرے حبیب کریم رئوف الرحیمﷺ کے چچازاد بھائی، آپ کے داماد باب شہر علم نبوت مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ قیام پذیر تھے۔ آپ کی یہ سادہ سی رہائش گاہ سیدنا علیؓ کے فقر و سادگی کی داستان بیان کرتی ہے۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جب پتھروں سے تعمیر کی گئی اس عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا تو دل کی حالت عجیب تھی۔ تاریخ کے ماہ و سال نے اپنے فاصلے سمیٹ لیے تھے اور ہم سب محسوس کرسکتے تھے کہ اس قدیم عمارت میں روحانیت کے نورانی اثرات ہیں۔ خوشبوئے علی اور حسن و حسین سے مہکتی اور ان کے مقدس وجود کی یادوں سے چمکتی یہ پانچ مرلے پر مشتمل عمارت اہل ایمان کو درس دیتی ہے کہ آقا کریمﷺ کے پروردہ اور تربیت یافتہ اشخاص کے گھر اسی طرح سادہ باوقار اور سدابہار ہوتے ہیں۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی ملاقات کے لئے آنے والے کو بٹھانے اور ان سے گفتگو کرنے کا ایک مختصر کمرہ ہے۔ آگے چل کر سیدنا علی المرتضیٰؓ کی عبادت اور یاد الٰہی میں مستغرق رہ کر اپنے خصوصی لمحات بسر کرنےکا مخصوص حجرہ مبارک ہے۔ اندر چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیاں ہیں جہاں اہل خاندان رہائش پذیر تھے۔ ان کے درمیان پانی کا ایک کنواں تھا جہاں سے گھر کی ضروریات کے لیے پانی حاصل کیا جاتا تھا اور ساتھ ہی کھانا پکانے کا مخصوص کمرہ یعنی ‘‘مطبخ‘‘ تھا اور ایک کمرہ اہل خانہ کی نماز اور عبادت کے لیے مخصوص تھا۔ یہ تھی اس امیر المومنین کی سرکاری رہائش گاہ کہ جس کی حکومت کے رعب و دبدبے سے سلطنت روم کے ایوان لرزتے تھے۔ واقعی جس عظیم شخصیت کا لافانی لقب ’’ابو تراب‘‘ بارگاہ نبوی سے عطا ہوا ہو اس کو اسی طرح کی سادہ عمارت ہی زیبا ہے۔ کوفہ اگرچہ اپنے تاریخی پس منظر کی وجہ سے بے وفا لوگوں کے شہر کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے، لیکن سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اس علاقے کو دارالخلافہ کے طور پر منتخب فرمایا تو اس کی ایک پہچان خلافت راشدہ کے آخری مرکز کے طور پر بھی ہے۔ مدینہ منورہ سے کوفہ تک خلافت راشدہ کی جو درخشندہ تاریخ ہے اس میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کی زندہ و تابندہ شخصیات اور ان سے منسوب اسلامی تاریخ کی زریں روایات ہیں۔ اس کے بعد بنوامیہ کی ملوکیت اور سلطنت ہے جس میں شخصی اقتدار اور خاندانی وقار کو مستحکم کرنے کی کاوشیں ہیں۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ اور خاندان نبوت کا وقار کم کرنے کی کوششیں ہیں۔ منبر پر سرکاری خطبا کی زبان سے سیدنا علی پر علی الاعلان سب و شتم اور گالی گلوچ ہے۔ کوفہ شہر میں داخل ہوں تو ایک ایسا وسیع و عریض قبرستان دیکھنے کو ملتا ہے جو بلاشبہ دنیا کے بہت بڑے قبرستانوں میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ گاڑی نامعلوم کتنی دیر تک قبرستان کے ساتھ ساتھ چلتی رہی لیکن اس کا احاطہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ گاڑی آہستہ ہوئی تو چند قبروں پر ہندوستان کی علاقائی حکومتوں اور راجواڑوں کے نواب اور راجائوں کی قبریں بھی ان پر لکھے گئے بڑے بڑے ناموں والے کتبوں سے پہچانی جاتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ اس سرزمین کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان کی وصیت کے مطابق انہیں یہاں دفن کیا جاتا تھا۔ سیدنا علی المرتضیٰؒ کا مزار اقدس ایک بہت بڑے احاطہ میں مسجد کوفہ کے ایک حصے میں ہے۔ عمارت سونے کے جڑائو کام اور قرآنی آیات کی حسین خطاطی کا خوب صورت امتزاج ہے۔ مزار اقدس کے قریب جائیں تو جلال حیدر کرار کے اثرات دل پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہم تو ایک فاصلے پر کھڑے ہوکر تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہو گئے لیکن ایک ہجوم تھا جو زریں جالیوں کو چومتا تھا اور دیوانہ وار مزار کے اردگرد گریہ و زاری کرتا تھا حتیٰ کہ ایک جنازے کو کندھے پر اٹھائے لوگ مزار کی زیارت کیلئے آئے ہوئے تھے۔ یہ بات مشاہدے میں آئی کہ کچھ لوگ جوش عقیدت میں طواف کے انداز میں مزار کے اردگرد چکر لگا رہے تھے۔ یہ عجیب انداز محبت تھا کہ اس میں شریعت مطہرہ کی واضح اور صریحاً خلاف ورزی کی جارہی تھی، لیکن اسے معمول سمجھ کر سب ہی خاموش تھے اور اپنے اپنے اعمال میں مصروف تھے تو اس لمحے آقا کریمﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم سامنے آتا ہے کہ کچھ لوگ حضرت علیؓ سے بغض و عداوت رکھیں گے اور کچھ لوگ انہیں الوہیت و ربوبیت کے درجے تک پہنچادیں گے۔