پانامہ لیکس کے بعد دبئی اسکینڈل

October 26, 2017

پانامہ لیکس کے بعد پاکستان سے قومی سرمائے کی بیرون ملک ممکنہ غیر قانونی منتقلی کا ایک اور سکینڈل منظر عام پر آیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ کے کرپٹ لوگ لوٹ مار کا پیسہ ہضم کرنے کےلیے کیا کچھ کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں دبئی رئیل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی جانب سے ساڑھے 8کھرب روپے کی سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا ہے یہ کمیٹی متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی طور پر قائم کی گئی ہے کمیٹی نے ایف آئی اے، نیب، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر سمیت تمام متعلقہ ایجنسیوں کو یہ پتہ لگانے کی ہدایت کی ہے کہ دبئی میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی کون ہیںکمیٹی کے آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ و قانون کے حکام کو طلب کیا جائے گا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ متحدہ عرب امارات پر دبائو ڈال کر دبئی میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری سے متعلق معلومات کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں، پاکستانی 2006سے حکومتی تحفظات کے باوجود وہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں پاکستان نے ان کے کاروبار کی تفصیلات جاننے کے لیے متعدد خطوط لکھے مگر عرب امارات نے کسی کا جواب نہیں دیا امارات سے معلومات کے لیے انسداد بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے قوانین استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن قوانین میں خامیوں کی وجہ سے اب تک ایسا نہیں ہو سکا ایک سقم یہ بھی ہے کہ سرمایہ کاری کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی بیرون ملک جو رقم لے جا سکتا ہے اس کی کوئی حد نہیں دبئی کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی سرمایہ لے جانے کے شواہد موجود ہیں ناجائز طور پر سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کی جامع تحقیقات اس لیے بھی ہونی چاہئے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے اور کرپشن کرنے والے لوٹ مار کا پیسہ چھپانے کے لیے اسے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے معاملے کی پانامہ لیکس کی طرز پر تفصیلی تفتیش و تحقیقات کی جائے۔