جنگ کے بعد یمن کی ازسرنوتعمیر؛پاکستان اور سعودی عرب کا کردار

November 13, 2017

یمن کا بڑا بنیادی ڈھانچہ حالیہ جنگ تباہ ہو گیا ہے اورلوگ انتہائی قابل رحم حالت میں زندگی کی بنیادی ضروریات کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں ۔ پریشان حال عوام مدد اور حمایت کے لئے عالمی برادری خاص طورپر مسلم دنیا کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ آج میں اس موضوع پر مسلم دنیا کی بشمول اپنی حکومت کی توجہ مبذول کرارہا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور وہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی مدد کریں ۔ یمنیوں کی پریشانیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب 2015 میں جنگ چھڑ گئی یہ وہ وقت تھا جب باغیوں نے ملک کی حکومت پر زبردست دبائو ڈالا تھا۔ اس کے نتیجے میں دو قوتیں ابھر کر سامنے آئیں ایک وہ جن کی وفاداری صدر عبدالرحمٰن منصور ہادی کے ساتھ تھی اور دوسری وہ جو حوثی باغیوں کی تحریک کے ساتھ تھی۔وہ بحران جو ابتدا میں ملکی تھا جلدہی عالمی اہمیت اختیار کرگیا جب داعش او ر القاعدہ بھی یمن کے کچھ علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے ارادے سے اس میں کود پڑے۔ مہلک ہتھیاروں سے لڑی جانے والی اس جنگ میں زبردست نقصان ہوا۔ یمن غریب ترین عرب ملک ہے جس کی آبادی 26ملین ہے۔ جس میں سے 21ملین افراد اس المناک جنگ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 80فیصد افراد کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے ۔ملک کو بدترین قسم کی فوڈ سیکورٹی کے بحران کا سامنا ہے جہاں 17ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی اشد ضرورت ہے اور 7ملین افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں ۔اسی طرح ہیضے کا مرض پھوٹ پڑنے سے صحت کی صورتحال بدترین ہو گئی ہے اوردو لاکھ افراد اس میں مبتلاہیں۔ مزید یہ کہ تین ہزار 652مقامات پر جہاں ویکسی نیشن کی سہولت فراہم کی جارہی تھی وہ2016کے اوائل سے بند ہیں۔ جس کے نتیجے میں 62لاکھ بچے جن کی عمریں 15برس سے کم ہیں ملیریا کے خطرے سے دوچار ہیں۔ المناک جنگ سے ڈرامائی طورپر زندگیوں کے متاثر ہونے کے علاوہ معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو بنیادی طورپر پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہے۔ جنگ سے بنیادی ڈھانچے کو بھاری نقصان پہنچا ہے اور اندرون ملک 25لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور ان کے گھر اورذاتی اشیاء راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 2016میں یمن میں جنگ کے بحران کے نتیجے میں معیشت کا بہت بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے اور اندازہ ہے کہ ملک کو 7.3ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ بہت سے شہروں میں مکانات ، اسپتال، اسکول، مارکیٹیں اور یہاں تک کہ تجارت اور سینٹری کا نظا م بھی تباہ ہو گیا ہے۔ اسپتال اور اسکول جو یا تو جزوی تباہ ہوئے تھے یا مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے انہیں اب پناہ گزینوں کے لئے پناہ گاہوں کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے اور یا پھر ان پر لڑنے والے باغیوں اورمسلح گروپوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اطلاعات سے ظاہر ہو تاہے کہ مجموعی طورپر 63طبی مراکز پر حملہ کیا گیا جن میں سے 3کو مسلح گروپس استعمال کررہے تھے۔ مزید 51حملے ایسے تھے جن کے بارے میں تصدیق ہو ئی کہ ان میں تعلیمی اداروں بشمول اسکولوںاور اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ 1600اسکولوں میں سے جو بمباری کی زد میں آئے 280مکمل طورپر تباہ ہو گئے اور500کو جنگ کے متاثرین خاص طور پرپناہ گزینوں کے لئے پناہ گاہوں کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے۔باغیوں نے 33اسکولوں پر قبضہ کر لیا ہے اور انہیں رکاوٹوں کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ بمباری اور جنگ کے بعد اسکولوں کو پہنچانے والے نقصان کا اندازہ 250ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جنگ کے بعد میں معیشت جیسے ملک یمن کی معیشت کا معمول کی معیشت کے ملک سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ تباہ کن جنگ کی صورتحال کے بعد جو پہلی چیز سامنے آتی ہے وہ سماجی اور معاشی ڈھانچے کی ازسرنو تعمیر ہے۔ تاہم وہ ممالک جنہیں جنگ کے بحران کا سامنا ہے یا جن کے اندر پرتشدد تنازعے کی لڑائی جاری ہے انہیں معمول کی حالت پرواپس لوٹنے کے لئے زبردست چیلنجز کا سامنا ہے جسے کبھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انسانی ہمدردی کی بنیادی پر ریلیف جس میں بنیادی ضرورتوں کی فراہمی جیسے خوراک، پانی، پناہ گاہ اور تحفظ شامل ہے ریکوری کا پہلا قدم ہے۔اس کے بعد مالی ریلیف شروع ہو تا ہے تاکہ تباہ شدہ معیشت کی تعمیر کا عمل شروع ہو سکے۔ 26مارچ2015 کو وہ بحران جو ریاست کا اندرونی معاملہ نظر آتا تھا بڑھ گیا اور بدترین قسم کی جنگ میں تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں تشدد پھیل گیا۔ شمال میں سعد کے شہروں اور جنوب میں عدن اور TAIZبدترین جنگ کی وجہ سے ملبے میں تبدیل ہو گئے۔ صرف چار شہروں میں انرجی کی تنصیبات کی ازسرنو تعمیر کا اندازہ 139ملین ڈالر لگایا گیاتھا کوئی بھی یہ تصورنہیں کر سکتا کہ یمن کو اپنے پورے بنیادی ڈھانچے کو از سرنو تعمیر کرنے کے لئے اوربحالی کے عمل کو شروع کرنے اور مکمل کرنے میں کتنے اخراجات اٹھانے پڑیں گے۔ایک ایسا ملک جو اندرون اوربیرونی جھگڑوں اور پاور کے بحران سے اس قدر سخت متاثر ہوا ہو کس طرح اپنے اتحادیوں کی حمایت کے بغیر بحالی اورتعمیر نو کے عمل سےگزر سکتا ہے۔ اس لئے یمن میں سنگین انسانی بحران کو حل کرنے کیلئے ان ممالک کی جانب سے جن پر یمن کےعوام بھروسہ کرتے ہیں ۔عالمی امداد تیز ترین اور طویل مد تی حل کیلئے بہت ضروری ہے ۔ملک کو جس نقصان اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی درجہ بندی کرنے کے لئے ایک منظم کلیئرنس اور بحالی کے لئے عمل کو شروع کرنا ہو گا جو مخصوص علاقوں کو ایک کے بعد ایک منتخب کرکے کیا جائے گا۔ تعمیر نو اوربحالی کے عمل میں بہت زیادہ وقت اور مہارت درکار ہو گی جس کے ذریعے پورے ملک کا احاطہ کیا جاسکے۔اس لئے ایک منظم حل کی ضرورت ہے جس میں اچھی طرح سوچ سمجھ کر ایک کے بعد ایک علاقہ ترجیحی بنیادیوں پر منتخب کرکے کام کرنا ہو گا۔ یہاں جنگ کے نتیجے میں یمن کے باشندوں کے دل میں مغربی طاقتوں سے متعلق اعتماد کے بحران میں مسائل پیدا کئے ہیں لہٰذا تعمیرات اور بحالی کا عمل مغربی کمپنیوں کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یمن کے باشندے اس کو اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔تاہم اگر از نو تعمیر پاکستان کی جانب سے کی جاتی ہے تو مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے اس مدد کی ممکنہ طورپر مخالفت نہیں کی جائے گی۔ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اوربحالی کی مہارت میں پاک فوج بے مثال ہے۔ سوات اور فاٹا میں پاک فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی از سرنو تعمیر اور بھرپور بحالی کا عمل مثالی تھا۔ شمالی یمن کا زمینی علاقہ بہت حد تک فاٹا سے ملتا جلتاہےاور میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان آرمی یمن میں نہایت موثر انداز بحالی کے آپریشنز کرنے کے لئے بہترین ہے میں مزید یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ سعودی فیصلہ ساز یمن میں تعمیر نو کے عمل کے لئے پاکستان کو مدعو کرنے پر غور کریں تاکہ پاکستان کی مؤثر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے بطور پڑوسی سعودی حکام یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں ریلیف فراہم کرنے کے لئے اپنا موثر کردار ادا کرسکیں ۔اسی دوران میں اپنی دفاعی ٹیم کو بھی یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ یمن کی مدد کرنے کے اس موقع کو جانے نہ دیا جائے ۔جس میں نہ صرف یہ کہ ضرورت مند مسلم قوم کی مدد کا ارادہ شامل ہو بلکہ ایک طویل مدتی اتحادی اور عالمی سیاسی ڈائنامکس میں دوست بنانا بھی شامل ہو۔ یمن میں بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی ازسرنو تعمیر ایف ڈبلیو ، این ایل سی اورممتاز پاکستانی نجی بلڈز کے ذریعے کرانے پر غور کیا جائے۔ انجینئرنگ کور کے ریٹائرڈ حکام اورنجی کمپنیوں کی لیبر فورس کی یمن میں مل کر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا عقل مندی کا تقاضہ ہے ۔ میں یہ بھی تجویز کرتا ہوں کہ اور ابتدائی سروے کا کام اور ریسرچ ، تعمیرات اوربحالی کا کام اسی پیچیدگی سے بچنے کے لئے او آئی سی کی نگرانی میں کرایا جائے۔ اس طرح سے پاکستان اپنی مہارت ، صلاحیت ، انسانی محبت اوریمنی بہن بھائیوں کیلئے احترام کا مظاہرہ کرسکتاہے جس کی یقیناً عالمی برادری بھی تعریف کرے گی۔ جس وجہ سے میں مسلم اقوام پر زور د ے رہا ہوں وہ مشترکہ طورپر یمن کی مدد کریں اور یہ ہے کہ میں نے عراق کی تباہی کا مطالعہ کیا ہے جہاں بڑھتی ہوئی اموات اوربے بسی کی وجہ سے عوام خطرات کا شکار ہو کر داعش کے رحم و کرم پر چلے گئے۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر پاکستان ، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک مل کر یمن میں بحالی کے عمل میں مؤ ثرکردارادا کرے تو اسے عراق کے انجام سے بچایا جا سکتا ہے اور یمنی خاندان اپنےگھروں اور زندگیوں میں لوٹ سکتے ہیں۔ مزید براں پاکستان کو چاہئے کہ وہ وزارت امور خارجہ اور وزارت دفاع کے ذریعے یمن میں جس قدر جلد ممکن ہو بحالی کے منصوبے مکمل کرنے کیلئے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کرے ۔اس سے مسلم دنیا کوایک مثبت پیغام جائے گا اور مجھے امید ہے کہ اس سے مثبت جوابی ردعمل بھی پیدا ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ اس تجویز کو مثبت طورپر دیکھا جائے گا اور یہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ محمد بن سلمان کیلئے قابل قبول ہو گی ۔ جنگ سے پریشان حال یمنی فوری مدد کیلئے مسلم امہ کی جانب دیکھ رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ مسلم ریاستیں اس کوترجیح کے طورپر دیکھیں گے اور یمن کی تعمیرنو کیلئے تیزی سے کام کریں گی۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس میں حصہ لینے کے لئے پہلا قدم اٹھائے گی۔