عراق سے حجاز تک انداز بیاں … سردار احمد قادری

November 21, 2017

عراق سے حجاز تک سفر ایک عظیم روحانی تجربہ تھا اس ایک سفر نے پلک جھپکتے ہی صدیوں پیچھے لاکھڑا کیا۔ دور حاضر سے اس نورانی دور باسعادت کا قلبی اور روحانی تعلق استوار ہوگیا۔ روح ان حسین دنوںسے جڑ گئی جب عراق صحابہ کرامؓ اور تابعین تبع تابعین کا مرکز تھا اور یہاںسے عشاقان حرمین طیبین کے مسافر قافلہ در قافلہ روانہ ہوا کرتے تھے انہی راستوں سے عبداللہ بن مسعودؓ سفر کرتے ہوں گے۔ کون عبداللہ بن مسعود؟ وہ خوش قسمت غریب خاندان کا چرواہا جس پر آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی نظرکرم پڑگئی اور اس نوجوان کو میرے آقا نے اپنی خدمت کے لئے چن لیا قربت اور صحبت کا شرف عطا فرمادیا۔ عبداللہ بن مسعودؓ اپنے سامعین کو بڑے اہتمام سے اس دن کا واقعہ تفصیل سے سنایا کرتے تھے جس دن نے ان کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی، وہ ایک دن کہ جس دن ان کے مقدر کا ستارہ عروج پر پہنچا اور ان کی خوش بختی کو چارچند لگ گئے۔ وہ کہتے تھے کہ میںغریب خاندان کا ایک نوجوان تھا جو اجرت پر بکریاں چرارہا تھا کہ سرور کائناتﷺ کا اس وادی سے گزر ہوا عبداللہ بن مسعود آپؐ کو نہیںجانتے تھے آقا نے دودھ طلب فرمایا، عبداللہ نے بتایا کہ دودھ دینے والی بکری یہاں کوئی نہیں ہے۔ رحمت کائناتﷺ نے اپنا دست کرم ایک کمزور اور لاغرسی بکری کے تھنوں کو لگایا تو وہ دودھ سے لبریز ہوگئے، آپﷺ نے دودھ خود دوہا اور عبداللہ کو بھی عطا فرمایا پھرآپﷺ نے فرمایا تمہیں تو استاد بننا ہے تم یہاں بکریاں کیوں چرارہے ہو اور پھر وہ سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواہش اور ہدایت پر حضورﷺ کے پاس آگئے اور یوں ابن مسعود نے اپنی بقایا عمر فخر عرب وعجم شفیع المذنبین سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں گزاردی، گویا وہ اس شعر کی تصویر بن گئے:
تیرے بنا جو عمر بتائی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
لاغر اور نحیف جسم کے ابن مسعود اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے کہ انہیںایک ایسا اعزاز حاصل تھا جو ان کی پہچان بن گیا، وہ ’’صاحب الوسادۃ والنعلین والمطہرہ‘‘ تھے یعنی میرے آقا کریم رئوف الرحیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے آرام کے لئے تکیہ آپ ﷺکے پائوں کے لئے نعلین مبارک اور آپ ﷺ کے وضو کے لئے مقدس لوٹا اٹھایا کرتے تھے، بس یہ خدمت کرتے کرتے وہ امت کے عظیم فقیہ اور امام بن گئے کہ جن کے شاگردوں کے شاگرد بعد میںفقہ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نام سے موسوم ہوئے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کوفہ میں آکر علم و ہدایت کا وہ روشن چراغ جلایا کہ جس کی کرنوں نے ایک جہان کو منور کردیا تو وہ یہ راستہ تھا کہ جہاں سے عبداللہ بن مسعود سفر کرتے ہوں گے۔ بغداد سے جہاز نے اڑان بھری تو کچھ دیر تو شہری اور دیہاتی آبادیوں کا کھڑکی سے نظارہ کرتا رہا پھر بے آب و گیاہ وادیاں شروع ہوگئیں، کہیں سرخ کہیں کالے سیاہ پہاڑوں کا سلسلہ تھا کہیں ریت کے صحرا تھے، جہاز میںمسافر جو سب کے سب عازمین حج تھے خوش تھے، تکبیرات پڑھ رہے تھے لیکن میںسوچوں میں گم تھا، صدیوںپیچھے چلاگیا تھا اور ان سنگلاخ اور ریگزاروادیوں اور راستوں میںماضی کے قافلوں کو دیکھتا تھا، کیا خبر انہی راستوں سے سفر کرتے کرتے سیدنا علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے کوفہ کا سفر کیا ہوگا۔ کوفہ کو دارالخلافہ قرار دینا سیدنا علی المرتضیٰرضی اللہ عنہ کا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا، اس نے خلافت اسلامیہ کی سمت متعین کردی تھی نئی پالیسی کے خدوخال واضح کردیئے تھے۔ نت نئے فتنوں سے نمٹنے کے لئے آپ کو فرمان نبوی کے مطابق فیصلہ کن اقدامات کرنا تھے، شام سے اٹھنے والی بغاوت کو کچلنا تھا، خلافت راشدہ ؓکے استحکام کو یقینی بنانا تھا، خوارج کے بدبختوںکے خلاف اعلان جنگ کرنا تھا، حضور نبی کریم رئوف الرحیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے ایک دن واضحطور پر ارشاد فرمایا تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کاحکم ہے میں نے کافروں اور مشرکوں کے خلاف تلوار اٹھائی ہے اسی طرح علی اسلام سے روگردانی کرنے والے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرے گا تاکہ وہ پیغام ہدایت کی طرف لوٹ آئیں۔ اس فرمان نبوی کو عملی حقیقت دینے کے لئے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو مدینہ منورہ سے عراق کی طرف آنا تھا، کوفہ کوخلافت راشدہؓ کا دارالحکومت بنانا تھا کیونکہ فتنہ شام کی سرزمین سے اٹھا تھا اور اس بغاوت کے خاتمے کے لئے شام کے قریب عراق کو اپنا مرکز بنانا ضروری تھا جس دن سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر اپنے اہل خانہ، خلافت راشدہؓ کے ذمہ دار افراد اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عراق کی طرف آرہے تھے تو شدت جذبات سے مدینہ منورہ کے لوگوں پر غم اور سوگ کی کیفیت طاری تھی، یہ سفر شہادت گہرالفت میں قدم رکھنے کا سفر تھا کیونکہ کائنات کی خبریںدینے والے سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمادیا تھا گزشتہ قوموں کا بدبخت آدمی وہ تھا جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا تھا اور میری امت کا بدبخت انسان وہ ہوگا جو علیؓ کے خون سے ہاتھ رنگین کرے گا تو حضرت علی المرتضیٰؓ نے شاید انہی راستوں کے ذریعے سفر کیا ہو، یہ سوچ کر مجھ پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی پھر اسی سوچ نے انگڑائی لی کہ امت کے کتنے آئمہ، کتنے محدثین، کتنے مفسرین، کتنے فقہا، کتنے اولیاء نے اس رہگزر کے ذریعے حجاز مقدس کا سفراختیار کیا ہوگا، خیال کی وادیوں میںکئی نام جگمگانے لگے حضرت حسن بصریؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام غزالیؒ، امام رازیؒ، سیدنا عبدالقادر الجیلانیؒ اور آئمہ اہل بیت اطہار میں سے امام موسیٰ کاظمؒ، امام علی رضاؒ اور ان جیسی مقدس اور بابرکت عظیم شخصیات نے عراق سے حجاز کا سفر بارہا کیا ہوگا لیکن پھر ایک بے آب و گیاہ صحرا اور ریتیلے چٹیل میدان کا منظرجہاز کی کھڑکی سے نظرآگیا توذہن فوراً دشت کربلا میںپہنچ گیا، خیال کی وادی میں وہ مختصر قافلہ تھا جس نے عراق سے حجاز کی طرف نہیں بلکہ حجاز سے عراق کی طرف سفر کیا تھا، اہل ایمان حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے حجاز کی طرف جارہے تھے لیکن اہل ایمان کا قائد، امت مسلمہ کارہبر، دین حق کا رمزشناس ظالموں اور بدکردار خودساختہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف اعلان جہاد کا صبح قیامت تک کےلئے استعارہ اہل بیت نبوی کا وہ روشن ستارہ اور پیغام عزیمت و استقامت کا پیکر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حج کے دنوں میں اس اہم ترین مہم کے لئے آمادہ سفر ہوا کہ جس نے اسلامی تاریخ میں ایک سنہرے باب کو رقم کرنا تھا، امام حسینؓ کا قافلہ اسلامی تاریخکا ایک بے مثال قافلہ تھا۔ اہل ایمان کے قافلے اب بھی سفر کرتے رہتے ہیں لیکن ان میں ایک بھی حسین نہیں ہے اگرچہ دجلہ و فرات کی وادی اب بھی صدا دے رہی ہے۔