سپریم کورٹ پارلیمنٹ یا عبوری حکومت کی مدت میں اضافہ کر سکتی ہے انصار عباسی

November 23, 2017

اسلام آباد : مردم شماری سے متعلق پیچیدگیوں، جنہیں اب تک پارلیمنٹ حل کرنے میں ناکام رہی ہے، کی وجہ سے آئینی لحاظ سے ایسا کوئی حل دستیاب نہیں ہے جس کی مدد سے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت میں اضافہ کیا جائے یا پھر عبوری حکومت کی مدت میں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے روبرو پیش کیا جانے والا مجوزہ حل قبول نہ کیا گیا تو آئندہ عام انتخابات میں تاخیر کا اندیشہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں سپریم کورٹ ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ موجودہ حکومت یا پھر اُس عبوری حکومت کی مدت میں اضافہ کیا جائے جو موجودہ حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد معاملات سنبھالے گی۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ تاریخ میں ملک یا پھر الیکشن کمیشن کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جہاں مردم شماری عین آئندہ عام انتخابات سے عین قبل منعقد کرائی گئی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ آئین میں اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے کہ مردم شماری کے اعلانیہ نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں اور قومی اسمبلی میں صوبوں کی نشستوں کے تعین کی وجہ سے عام انتخابات میں تاخیر ہو جائے تو کیا ہوگا۔ جس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک میں پیدا ہوتی صورتحال پر پریشان نظر آ رہا ہے اس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی ملک میں بروقت آئندہ عام انتخابات کیلئے ضروری سمجھی جانے والی آئینی ترمیم کے معاملے پر منقسم نظر آ رہی ہیں۔ اگرچہ قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کی منظوری دیدی ہے لیکن مطلوبہ اعداد (دو تہائی اکثریت) نہ ہونے کی وجہ سے اسے سینیٹ نہیں بھیجا جا رہا۔ 29؍ اگست کو الیکشن کمیشن نے وزارت قانون کی توجہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے آئندہ سال کے عام انتخابات بروقت کرائے جانے کے متعلق پیدا ہونے والے سوال کی جانب مبذول کرائی تھی۔ تاہم، ابتدائی طور پر حکومت نے اس میں تاخیر کی لیکن بعد میں قومی اسمبلی سے ضروری ترمیم منظور کرائے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتیں کسی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں کہ یہی آئینی ترمیم سینیٹ سے بھی منظور کرائی جا سکے۔

آئین کے آرٹیکل 51(5) میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور دارالحکومت کیلئے متعین کی جائیں گی۔ اسی آئینی شق کا حوالہ دیتے ہوئے، الیکشن کمیشن اگست میں حکومت کو بتایا تھا کہ مارچ تا مئی 2017ء منعقد کی جانے والی چھٹی قومی مردم شماری کے تناظر میں محکمہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ عبوری نتائج دیکھ کر یہ ضروری ہے کہ وفاقی یونٹس میں آبادی کے لحاظ سے تبدیلیاں کی جائیں تاکہ قومی اسمبلی اور ساتھ ہی صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ یا ان کی ری ایلوکیشن کی جا سکے۔ اس سلسلے میں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن ایکٹ 2017ء (جسے 22؍ اگست 2017ء کو منظور کیا ہے) کے چیپٹر سوم کے تحت حلقہ بندیوں کا کام کرنا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسی قانون کا سیکشن 17(2) کہتا ہے کہ ہر مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرے۔ الیکشن کمیشن کے خط میں مزید لکھا ہے کہ اس معاملے کی اہمیت، کام کی وسعت اور حلقہ بندیوں کیلئے درکار وقت کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ اگر مردم شماری کے نتائج شائع کرنے کے کام میں تاخیر ہوئی تو بروقت حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا کام نہیں ہو پائے گا۔ لہٰذا، مطلوبہ قانون سازی کیلئے ضروری قانونی اور انتظامی اقدامات کیے جائیں تاکہ مردم شماری کے نتائج بروقت شائع ہو سکیں تاکہ کمیشن اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری موثر انداز میں اور بروقت ادا کر سکے۔