کشمیر و افغانستان، پارلیمنٹ کہاں ہے؟

December 03, 2017

پاکستان میں جیسی تیسی، جمہوریت کے جاری عشرے کا اختتام اس لحاظ سے اہم اور مثبت ہے کہ اس میں ریاستی ڈھانچے کے قومی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ بڑی شدت سے لیا جارہا ہے۔ اس کار خیر میں میڈیا اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں پیش پیش ہیں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، وہ اس صورتحال پر پریشان ہے کہ موجود مسلط اسٹیٹس کو بدلتی سوچ اور آئین میں تبدیلی کے خلاف سب سے طاقتور مزاحمتی سیاسی قوت ہے اور یہ ہی عوام مخالف نظام اس کا سب کچھ ،جسے اس نے اور دیگر تبدیلی مخالف طاقتوں نے گزشتہ باری باری اقتدار کے لئے ایک غیر اعلانیہ اتفاق اور یکساں سوچ کے ساتھ تشکیل دیا ہے جیسے ہی صورتحال سازگار ہو اسٹیٹس کو کی منفی سیاسی قوتیں شیر و شکر ہو کر طرح طرح سے جمہوریت کا گیت الاپنے لگتی ہیں۔ کبھی حکومت کی مدت پوری کرنے کے لئے آئینی حوالوں سے، پارلیمنٹ کی بالادستی کو ہر عوامی و قومی مسئلے کا حل قرار دے کر تو کبھی عوام کو یہ یقین دلا کر کہ ’’گورننس جیسی بھی ہو، یہ بہترین آمریت سے بھی بہتر ہے‘‘ اور یہ کہ حکومت جتنی بھی بیڈ گورننس کی حامل ہے، اسے برداشت کیا جائے بلکہ ہرحال میں عوام اسے ہی چلنے دیں، ارتقاء جمہوری عمل کو خود ریفائن کردے گا، کرپشن کرپشن کا شور مچا کر حکومتی عدم استحکام نہ پیدا کیا جائے اور ہمیں کیسی بھی حکمرانی میں اقتدار کی مدت پوری کرنے دی جائے وغیرہ وغیرہ۔
اسٹیٹس کو اور اس کی موجود جائز و ناجائز موجود منتخب طاقت کے اس پس منظر میں جہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور عوام کے بڑھتے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آرہا، وہ اب بھی حکومت اور اپوزیشن (تبدیلی کی دعویدار اور اسٹیٹس کو حامی روایتی بھی) دونوں ہی ریاستی اداروں کے جائزے کے ماحول اور الیکشن ائیر شروع ہونے پر بھی پارلیمنٹ کو اس کے اصل کردار کی ادائیگی کی طرف لانے کے لئے تیار نہیں۔ پریشان کن صورت یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کی ناقد دوسری پارلیمانی جماعتیں بھی پارلیمان کے تشخص اور آئینی حیثیت بحال کرنے میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں رکھتیں۔ وہ اہم ترین قومی امور میں بھی حکومت کو آئینی کٹہرے میں لانے کے لئے تیار نہیں، جب کبھی حکومت یا اس کے ساتھ اپوزیشن کو بھی ضرورت ہو کسی مشترکہ سیاسی مفاد یا ضرورت کے لئے پارلیمنٹ سے اپنا کام نکال لیا جاتا ہے، یعنی آئینی پابندی کے باعث اس کے لاحاصل اجلاس مخصوص مدت میں کرنے پڑتے ہیں۔ اب یہ ثابت شدہ کیس بن چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے مسلسل، کابل میں امریکی اور بھارتی عسکری موجودگی میں کھل کھلا کر استعمال ہورہی ہے۔ پاکستان نے تو اپنے قبائلی علاقوں سے، جو 1979ء کی افغانستان پر سوویت جارحیت اور اسے ختم کرنے کی بین الاقوامی جنگ میں ملکی اور غیر ملکی جنگجوئوں کے بڑے مرکز میں تبدیل ہوگیا تھا اور اس حیثیت میں فری ورلڈ کو قابل قبول بھی تھا، میں انتہائی پر خطر ملٹری آپریشن کرکے دہشت گردوں کی ناقابل پہنچ آماجگاہوں(شمالی وزیرستان) سے پاک کردیا۔ امریکن یہ ضرور دماغ میں بسائے ہوں گے کہ پاکستان نے ایسا ہمارے مسلسل مطالبے پر تو نہیں کیا لیکن انہیں یہ بھی تو بخوبی معلوم ہے کہ پہلے سے جاری پاکستانی اندرونی سلامتی پر جاری حملوں کی موجودگی میں ایک بہت بڑا رسک تھا، جسے امریکی دبائو پر لینا بڑی حماقت معلوم دیتا تھا، لیکن پھر پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہولناک حملےپر بطور قوم ہمیں ازخود یہ بڑا خطرہ مول لینا ہی پڑگیا، جس میں پاکستانی افواج کی کمال مہارت ، جرأت اور قوم کی بھرپور تائید و حمایت سے دہشت گردوں میں ڈھل جانے والے افغان جنگ(1980-90)کے سابق جنگجوئوں کے ناقابل پہنچ خفیہ ٹھکانوں کو مکمل ختم کرنے کی حیرت انگیز کامیابی ہوئی لیکن اس کے باوجود، افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونےوالی دہشت گردی ختم نہ ہوئی، حتیٰ کہ پاکستان بارڈر مینجمنٹ جیسی مشکل اور بے پناہ اخراجات والے ٹاسک کی طرف بھی آنے پر مجبور کردیا گیا لیکن آج’’خالی سوراخوں‘‘ سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر افغانستان سے دہشت گردی کے حملوں جس میں ریاستی فائرنگ کا اضافہ ہوگیا ہے، کا سلسلہ جاری ہے۔ افغان سرزمین پر ڈیزائن ہونے والی دہشت گردی کے حملے ہماری پرامن پبلک لائف ، سلامتی اور دفاع کے بندوبست پر مسلسل کئے جارہے ہیں۔ پاکستان سے بھگوڑا ملا فضل اللہ، باغی طالبان ، حقانی اور اپنے اپنے علاقے میں کنٹرول سنبھالے، افغانی ، امریکنوں کے قابو آرہے نہ اتحادی فوجوں کے قابو آرہے ہیں، جبکہ پاکستان انتہائی بڑے خطرات مول لے کر اپنے حصے کا کام کرچکا لیکن افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی بڑھتی ہی جارہی ہے، جیسا کہ گزشتہ روز پشاور کی زرعی یونیورسٹی پر حملہ ہوا۔ وقت نہیں آگیا کہ ہم ٹھوس سفارتی دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ اب اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کو ایڈریس کریں اور فیکٹس فائڈنگ مشن بھیجنے کا مطالبہ، پارلیمنٹ کو سرگرم کریں اور منتخب ممالک کو اعتماد میں لے کر انہیں اپنا ہمنوا بنانے کے سفارتی اور پارلیمانی مشن شروع کریں۔
ادھر کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی دیدہ دلیری میں یہاں تک اضافہ ہوگیا ہے کہ اب وہ پیلٹ گن جیسے مہلک اسلحے کے بعد آزادی کے متوالے کشمیریوں کی ریلیاں منتشر کرنے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف آگیا،جن کے استعمال کی دنیا میں ممانعت ہے اور جسے انتہائی نفرت انگیز اور مذمتی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد اب اتنا قابل بھی نہیں رہا کہ داخلی سیاست کے جھمیلوں سے بالاتر اور مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی شہادتوں سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال کو ایڈریس کرنے اور پوری پاکستانی قوم کا پوری دنیا کو پیغام اور موقف پہنچانے کے لئے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلاسکے؟ کہاں ہے ہماری سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کشمیر اور خارجہ امور کی کمیٹیاں ، پیچیدہ داخلی سیاسی مسائل کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم کشمیر، سلامتی اور خارجی امور سے مکمل غافل ہوجائیں اور اپنے دشمنوں کو کھلا چھوڑ دیں۔ امریکی کانگریس، برطانوی پارلیمان، یورپی پارلیمنٹ اور بیرونی حکومتوں کو آج کی دنیا میں اپنا موقف پہنچانا، سوائے بیڈ گورننس اور ہر دو اہم ترین قومی موضوعات پر مجرمانہ حد تک لاپروائی کے سوا کچھ نہیں۔