پرائمری تا سیکنڈری تعلیم،دنیا صنفی مساوات قائم کرنے میں ناکام

December 12, 2017

لاہور(رپورٹ،شاہین حسن) عالمی سطح پر تعلیم کے حصول میں صنفی مساوات کا ہدف کسی بھی سطح تعلیم میں حاصل نہیں ہو سکا جبکہ پر ائمری سے اپر سیکنڈری تک صنفی مسا وات میں واضح گیپ نظر آتا ہے۔گلوبل ایجو کیشن مانیٹرنگ رپورٹ جینڈر ریوئیو2016کے مطابق دنیا میں 63فیصد ممالک پرائمری اسکولوں میں صنفی مساوات (100لڑکوں کے مساوی100لڑکیوں کا اسکول میں داخل ہونا) کا ہدف حاصل کر سکے۔46فیصد ممالک لوئر سیکنڈری اسکولوں جبکہ صرف23فیصد اپر سیکنڈری کے تعلیمی اداروں میں صنفی مسا وات کو قائم کر سکے۔یہ انڈیکیٹر اس بات کی واضح نشاندہی کر رہے کہ کہ عالمی سطح پر بالغ خواتین کی ناخواندگی کی صورتحال جوں کی توں رہنے کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں صنفی مسا وات قائم کرنے میں ناکامی ہے۔یونیسکو کی رپورٹ 2016کے مطابق دنیا کی15فیصد75کروڑ80لاکھ بالغ افراد پر مشتمل آبادی نا خواندہ ہے۔ ان میں سے تقریبا دو تہائی 47 کروڑ 90 لاکھ خواتین شامل ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس صورتحال میں2000سے کوئی بہتری پیدا نہیں ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیاء اور سب صہارا افریقہ میں3میں سے ایک جبکہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں5میں سے ایک بالغ خاتوں نا خواندہ ہے۔پرائمری اسکولوں کی سطح پر صنفی مساوات کا خطوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو سب سے ابتر حالت جنوبی ایشیاء کی ہے۔جہاں صرف 29 فیصد ممالک میں لڑکوں کے مساوی لڑکیاں اسکولوں میں داخل ہیں۔سب صہارا افریقہ کے 38فیصدممالک،لاطینی امریکہ اور کریبین کے48فیصد،شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء کے56،مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے86،یورپ اور شمالی امریکہ کے93جبکہ caucasusاور وسطی یورپ کے 100فیصدممالک پرائمری اسکولوں میں صنفی مساوات کا حدف حاصل کر چکے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ تمام ہی خطوں میں پرائمری سے لوئرسیکنڈری اور لوئرسیکنڈری سے اپر سیکنڈری کے تعلیمی اداروں میں صنفی مساوات کے حوالے سے خلیج بڑھتی نظر آ رہی ہے اور کوئی بھی خطہ100فیصد صنفی مساوات کا حامل نہیں ہے۔لوئر سیکنڈری اسکولوں میں سب سے کم صنفی مساوات سب صہارا افریقہ میں ہے جہاں صرف19فیصد ممالک کے لوئر سیکنڈری اسکولوں میںصنفی مساوات پائی جاتی ہے۔ جبکہ سب سے بہتر صورتحال caucasusاور وسطی یورپ کے ممالک میں ہے جہاں83فیصد ممالک میں لڑکوں کے مساوی لڑکیاں اسکولوں میں داخل ہیں۔ عالمی سطح پر اپر سیکنڈری کے تعلیمی ادروں میں صنفی مساوات کے حوالے سے واضح کمی کا رجحان نظر آتا ہے جس کا اظہار ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے کہ سب صہارا افریقہ میں صرف 6فیصد ممالک جبکہ زیادہ سے زیادہ جنوبی ایشیاء کے38فیصد ممالک صنفی مساوات کے حدف کے حصول میں کامیاب ہیں۔ یہ تمام جائزہ واضح طور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ اسکولوں میں داخل نہ ہو نے یا پھر ڈراپ ہو کر تعلیم سے محروم ہو رہی ہیں۔ عالمی سطح پر 6کروڑ10لاکھ بچے پرائمری اسکولوں میں داخل نہیں ان میں سے 53فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ 2000میں بھی پرائمری اسکولوں سے باہر لڑکیوں کی شرح اتنی ہی تھی جس میں ڈیڑھ عشرے کے دوران کوئی بہتری نہیں ہو سکی۔ دوسری جانب یونیسکو انسٹیٹیوٹ آف اسٹیٹسٹکس ڈیٹا بیس کے مطابق پرائمری اسکولوں سے باہر لڑکیوں میں سے ڈیڑھ کروڑ کبھی اسکولوں میں داخل نہیں ہو سکے گی جس کی بنیادی وجہ غربت اور صنفی ا متیاز ہے۔تعلیمی ماہرین کے مطابق اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو دنیا 2030تک پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے مقرر کردہ اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔Gem رپورٹ2016کے نئے جائزے کے مطابق اگر سابقہ ٹرینڈ برقرار رہے تو یونیورسل ایجو کیشن فارآل کے حوالے سے2030تک ملینیم ڈیولپمنٹ گول کے دوسرے ہدف کا حصول بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ 2030 تک لوئرسیکنڈری سطح پر تعلیم مکمل کرے کا ہدف84فیصد جبکہ ہائی سیکنڈری تعلیم کی تکمیل کا 69فیصد ہے جبکہ موجودہ صوتحال کے رہتے کم آمدنی والے ممالک میں نصف کے قریب لڑکے اور لڑکیاں لوئر سیکنڈری جبکہ صرف33فیصد لڑکے اور 25فیصد لڑکیاں اپر سکینڈری تعلیم مکمل کر پائے گی۔