یو رپی یونین کا اپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے سے انکار دنیا بھر میں مظاہرے

December 13, 2017

برسلز/مقبوضہ بیت المقدس(نیوزڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس(یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور سفارت خانے کو تل ابیب سے منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں مظاہرے جاری ہیںجبکہ اب ان مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہےادھر یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کے حامی ہیںاور وہ اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل نہیںکریںگےجبکہ امریکی صدر کے فیصلے سے اتفاق نہیںکرتے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق دنیا بھر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پرکئ ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتین یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں موگرینی نے کہا ہےکہ یورپی یونین بیت المقدس کی پوزیشن کے حوالے سے بین الاقوامی اتفاق رائے کا احترام کرتی ہے۔ اْن کا اشارہ امریکی صدر کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو عالمی برادری کی جانب سے مسترد کر دیئے جانے کی طرف تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جنوری میں فلسطینی صدر کے ساتھ بات چیت کریں گی۔اس موقع پر نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ یورپی یونین کے زیادہ تر ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیں گے کیوں کہ اس اقدام کا مقصد امن عمل کو آگے لے جانا ہو گا۔ترکی کے صدررجب طیب اردوگان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جہاں بچوں کا قتل عام ہوتا ہے رجب طیب ایردوان نے فلسطین کے معاملے پر ٹرمپ کے فیصلے کو دنیا میں امن تباہ کرنے کی سازش بھی قرار دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے حالیہ یورپی دورے میں یورپین یونین کے وزرا سے برسلز میں ملاقاتیںکی ہیں تاہم وہ فیصلے کے حق میں حمایت حاصل کرنے میںیکسر ناکام رہے ہیں۔دوسری جانب امریکی فیصلے کے خلاف فرانس، پاکستان، ترکی، ملائیشیا، اردن، لبنان، انڈونیشا اور مصر سمیت دیگر ممالک میں سیکڑوں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔لبنان میں مظاہرین نے امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ٹرمپ مخالف نعرے لگائے اور امریکی صدر کا پتلا بھی نذرآتش کیا۔مظاہرین کی جانب سے سفارتخانے میں داخلے کی کوشش پر لبنانی فورسز نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کینن کا استعمال کیا جس سے متعدد مظاہرین زخمی ہوئے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس کا 20 دسمبر کو مشرق وسطی کا دورہ متوقع ہے تاہم فلسطینی صدر محمود عباس نے ان سے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ واپس لیں۔مصر میں عیسائیوں کے پیشوا پاپ ٹاواڈورس نے بھی امریکی نائب صدر سے ملاقات سے انکار کردیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے فیصلے سے لاکھوں عربوں کے جذبات کو ٹھس پہنچی ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے یکہ طرفہ فیصلے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات بڑی تیزی سے کشیدگی کی طرف سے بڑھتے چلے جا رہے اور دونوں ملکوں کے رہنماں کی طرف سے تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔ دوسری جانب جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے احتجاج کے دوران اسرائیلی پرچم نذر آتش کیے جانے پر تنقید کی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق میزیئر کے بقول یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ یہودیوں یا اسرائیلی ریاست کی اس شرمناک انداز میں تضحیک کی جائے۔ گزشتہ روز جرمن دارالحکومت برلن میں امریکہ کی اسرائیل کے حوالے سے سیاست کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور اس موقع پر اسرائیلی پرچم کو آگ لگانے کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے بھی ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔