سعودی عرب، فوج بھیجنے کا فیصلہ

February 17, 2018

حکومتوں اور خارجہ پالیسی کے تغیر ات بین الاقوامی تعلقات پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں، لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ میں دوام تابناکی کا عنصر ہمیشہ نمایاں رہا۔ اگرچہ چند مواقع پر یہ تعلقات معمولی اتار چڑھائو کا شکار بھی ہوئے لیکن یہ خفگی وقتی ثابت ہوئی اور زیادہ دیر برقرار نہ رہی۔ دونوں برادر ممالک میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا۔ شاہ فیصل کے عہد میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی رہے۔ سعودیہ پاکستان کو بلاشبہ خاص اہمیت دیتا ہے۔ وطن عزیز پر جب کوئی مشکل آئی سعودی عرب نے حتی المقدور پاکستان کی مدد کی۔ پاکستان جنگوں میں الجھایا اس پر افغان مہاجرین کا بوجھ پڑا تو سعودی عرب نے پاکستان کا دامے، درمے، قدمے، سخنے ساتھ دیا۔ ضیاء الحق کے بعد پاکستان سیاسی انتشار کا شکار رہا تو بھی سعودی عرب نے پاکستان سے تعلقات کومزید مضبوط کیا۔ یہی وہ عہد تھا جب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کو حاصل مقام مزید اہمیت کا حامل ہو گیا۔ پاکستان نے 1998ء میں بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا تو مغربی اتحادیوں نے سعودی عرب کی وساطت سے پاکستان پر دبائو بڑھانا چاہا لیکن اس کے برعکس سعودی عرب نے پاکستان کی ہمت بندھائی کہ وہ ایٹمی دھماکے ضرور کرے۔ جنرل مشرف کے دور میں ابتداء ً دونوں ملکوں کے مراسم اچھے رہے، دونوں ملکوں کی افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں تاہم مشرف کے آخری دور اور صدر زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ تعلقات قدرے سردمہری کا شکار رہے جو مسلم لیگ ن کی حکومت کے قیام کے بعد بحال بلکہ مزید مضبوط ہوئے ۔ سعودی عرب نے اگر پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا تو پاکستان نے بھی اس کے لئے بہت کچھ کیا ،خاص طور پر دفاعی حوالے سے پاکستان نے اُسے مضبوط کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1967ء میں پاکستان اور سعودی عرب کا فوجی معاونت کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودیہ کی بری، بحری اور فضائی افواج کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ کے عراق پر حملے کے دوران پاکستان کی مسلح افواج کی معتدبہ تعداد مقاماتِ مقدسہ اور دیگر تنصیبات کی نگرانی پر مامور رہی۔ نام نہاد ‘‘عرب بہار‘‘ کے دوران بھی سعودی عرب کو پاکستان کی مکمل حمایت حاصل رہی اور پاکستان ان معاملات سے نمٹنے کو تیار رہا۔ جب سعودی عرب اور یمن کے مابین جنگ چھڑ ی تو اُس نے پاکستان سے فوج بھیجنے کی درخواست کی، معاملہ چونکہ دو مسلمان ملکوں کے مابین تھا چنانچہ پارلیمان نے اس مسئلے میں مداخلت کی سخت مخالفت کی۔ پاکستان نے فوج تو نہ بھیجی البتہ یہ ضرور یقین دلایا کہ اگر سعودی عرب کی سلامتی و خودمختاری کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا۔ کچھ عرصہ قبل قطر کے معاملے میں بھی پاکستان نے یہی طرز عمل اپنایا تاہم اب حالات مختلف ہیں۔ پاکستان کسی کی جنگ خود لڑنے کی بجائے تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے کہ برادر اسلامی ملک ناقابل تسخیر دفاع کا حامل ہو سکے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے جمعرات کو جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سیکورٹی تعاون جاری ہے اور پاک فوج کے مزید دستے سعودی عرب بھجوائے جا رہے ہیں جو سعودی فورسز کو ٹریننگ دیں گے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ اور پہلے سے موجود دستے سعودی عرب سے باہر تعینات نہیں کئے جائیں گے، پاک فوج خلیج اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی سیکورٹی تعاون کر رہی ہے۔ پاکستان کا حالیہ اقدام اس لئے بھی قابل اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کی مسلح افواج سعودی فورسز کو تربیت دینے کے لئے بھیجی جا رہی ہیں اس کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں۔ پاکستان کو اس سے البتہ یہ فائدہ ہو گا کہ دونوں ملکوں میں سردمہری گرم جوشی میں تبدیل ہو جائے گی اور سعودی فورسز بھی اپنے دفاع کے قابل ہو جائیں گی۔