پاکستان ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل

March 07, 2018

کچھوے کی مثال تو آپ نے اکثر سنی ہوگی جو خطرے کی صورت میں اپنا سر چھپالیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔ پاکستان کے پالیسی میکرز کی مثال بھی کچھوے کی مانند ہے جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی جانب سے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرنے کے خطرات سے منہ چھپاتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ ایسا کرنے سے خطرات ٹل جائیں گے لیکن یہ حقیقت سے منہ چھپانے کے مترادف تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ FATF کے پیرس اجلاس کے بعد بھی یہ سمجھا جاتا رہا کہ پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرنے کا خطرہ ٹل گیا لیکن اس دوران بھارتی میڈیا مسلسل شور مچاتا رہا کہ ’’پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہوچکا ہے۔‘‘ بالآخر ایک ہفتے کے ابہام کے بعد گزشتہ روز دفتر خارجہ پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک سے متعلق FATF کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں پاکستان کا نام شامل ہونے کی تصدیق کرنا پڑی مگر ساتھ ہی لوگوں کو کنفیوژ کرنے کیلئے کہا گیا کہ ’’پاکستان کا نام گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پیرس میں منعقدہ FATF اجلاس میں امریکہ اور اُس کے یورپی اتحادیوں نے پاکستان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کی تھی۔ اجلاس کے فوراً بعد بھارت نے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کئے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے اِسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’بھارتی سفارتکاری کے نتیجے میں پاکستان کے دوست ممالک چین اور سعودی عرب نے بھی FATF اجلاس میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیئے۔‘‘
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام 1989میں عمل میں لایا گیا۔ تنظیم کی بنیادی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنا ہے۔ FATF کے 37 ارکان میں 35 ممالک اور 2 علاقائی تنظیمیں خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل تنظیم سے بطور مبصر منسلک ہیں۔ FATF دنیا کے مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں کی درجہ بندی کرکے فہرستیں مرتب کرتی ہے جس میں ایک فہرست ’’بلیک لسٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس فہرست میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو کسی قانون سازی کے حوالے سے دنیا اور عالمی اداروں سے ’’ عدم تعاون‘‘ کر رہے ہوں یا دوسرے الفاظ میں وہ پیسوں کی اسمگلنگ اور رشوت ستانی میں ملوث ہوں جبکہ ’’ گرے لسٹ‘‘ میں اُن ممالک کے نام شامل ہوتے ہیں جو دنیا سے ’’عدم تعاون‘‘ تو نہیں کرتے لیکن انہوں نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے حوالے سے ناکافی قانون سازی کی ہوتی ہے جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان 2012ء سے 2015ء تک FATF واچ لسٹ میں شامل تھا لیکن بعد میں پاکستان کا نام لسٹ سے نکال دیا گیا اور حکومت پاکستان کو خبردار کیا گیا کہ اگر عسکریت پسندوں کی فنڈنگ کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کا نام دوبارہ اِس لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے مگر ہم FATF کی تنبیہ کو نظر انداز کرتے رہے اور بالآخر پاکستان کا نام دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں دوبارہ شامل کردیا گیا۔
’’گرے لسٹ‘‘ میں دوبارہ نام شامل ہونے کے بعد امکان ہے کہ پاکستان کا رسک پروفائل بڑھ جائے گا جبکہ پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم کے تبادلوں میں مشکلات پیش آئیں گی اور بیرونی سرمایہ کار بزنس سے متعلق قانونی خدشات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ کاروبار سے گریز کریں گے۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں سے فنانسنگ مشکل اور مہنگی ہوجائے گی جبکہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے ملکی خسارے میں اضافہ اور معیشت دبائو کا شکار ہوسکتی ہے جس کے پیش نظر عالمی ریٹنگ ادارے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی کے مراحل سے بھی گزرنا ہوگا جس سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی بلکہ ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
آج کل عالمی ریگولیٹرز بینکوں کو منی لانڈرنگ کے قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے کروڑوں ڈالر جرمانہ کررہے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان کے ایک بڑے مالی ادارے حبیب بینک پر نیویارک میں بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے 225ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا جس کی وجوہات بینک کا منی لانڈرنگ کے ضوابط کے منافی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کی سرگرمیاں بتائی گئی تھیں۔ جرمانے کے بعد حبیب بینک کو امریکہ میں اپنا آپریشن بند کرنا پڑا جبکہ بعض دوسرے بینک جو زیادہ تر کارپوریٹ صارفین کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں،نے بھی عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے شدید دبائو کے باعث گزشتہ چند سالوں کے دوران ’’ہائی رسک ممالک‘‘ میں اپنے آپریشنز محدود کردیئے ہیں۔
پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل ہونے سے جہاں ایک طرف عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوئی، وہاں دوسری طرف قابل افسوس بات یہ ہے کہ FATF اجلاس میں پاکستان تنہا نظر آیا اور FATF کے 37 رکن ممالک کی اکثریت نے پاکستان کی مخالفت میں ووٹ ڈالے جبکہ چین اور گلف کوآپریٹو کونسل جس میں تمام خلیجی ممالک شامل ہیں، نے بھی پاکستان کو سپورٹ نہیں کیا۔ سعودی عرب اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شریک تھا لیکن اُس نے بھی پاکستان کی حمایت نہیں تاہم ترکی وہ واحد برادر اسلامی ملک تھا جس نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عالمی تعلقات میں نہ تو دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن بلکہ صرف اور صرف ممالک کے سیاسی، معاشی، تجارتی اور دیگر مفادات دیکھے جاتے ہیں، کوئی بھی برادر اسلامی یا دوست ملک ہماری خاطر ایک حد تک ہی اپنے مفادات کی قربانی دے سکتا ہے، اگر آج چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں نے ہمیں سپورٹ نہیں کیا تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے دشمن اور بھارت کے ساتھ ہیں بلکہ یہ دوست ممالک ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا مفاد اِسی میں ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور مالی مدد سے گریز کرے۔
کچھ ماہ قبل ’’نیوز لیکس‘‘ کے معاملے پر حکومت اور کچھ اداروں کے درمیان تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی اور مسئلے کو سلجھانے کیلئے اُس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید سمیت کچھ شخصیات کو اپنے عہدوں کی قربانی دینا پڑی۔ غور کیا جائے تو ’’ لیکس‘‘ میں بھی اُنہی باتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جس کی بناء پر آج FATF نے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا۔ اگر ہم اُس وقت مسئلے کے حل پر توجہ دیتے تو آج پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔ وزارت خارجہ تنقید سے بچنے کیلئے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئی کہ ’’FATF سے متعلقہ تمام معاملات وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ ہم وزارت خارجہ یا خزانہ کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرائیں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ادارے اُس سیلزمین کی مانند ہیں جو آپ کی پروڈکٹ (Product) بیچ رہے ہیں لیکن اگر آپ کا پروڈکٹ خراب ہے تو دنیا کا ’’بہترین سیلزمین‘‘ بھی اُسے اچھا ثابت کرکے نہیں بیچ سکتا لہٰذا پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ’’سیلزمین‘‘ کو مورد الزام ٹھہرانے کی۔