پی ٹی آئی کی سمیع الحق اور انیسہ طاہر سے بے وفائی

March 08, 2018

ارشد عزیز ملک

خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات ہارس ٹریڈنگ‘ اراکین کی خرید و فروخت ‘دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی کی بازگشت میں مکمل ہوگئے‘ متوقع نتائج کے برعکس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) 2‘ 2نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں ‘ مسلم لیگ (ن) ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے ‘ خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی گیارہ نشستوں کے نتائج مکمل ہوئے، تحریک انصاف 5 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو دو‘ دو ، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کو ایک ‘ایک نشست ملی۔

خواتین کی مخصوص نشست پر تحریک انصاف کی ڈاکٹر مہر تاج روغانی اور پیپلزپارٹی کی روبینہ خالد کامیاب قرار پائیں، ٹیکنو کریٹ کی نشستوں پر تحریک انصاف کے اعظم سواتی اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ دلاور خان فتح یاب ہوئے۔مولانا سمیع الحق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر صرف 4 ووٹ لے سکے جبکہ جے یو آئی کے مولانا گل نصیب جنرل نشست پر صرف 7 ووٹ لے سکے۔جنرل نشست پر تحریک انصاف کے فیصل جاوید، محمد ایوب، فدا محمد، پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی، جے یو آئی (ف) کے طلحہ محمود،مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ پیر صابر شاہ اورجماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان کامیاب ہوئے۔

عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی کو کوئی نشست نہ مل سکی‘ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف 6نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی‘ پیپلز پارٹی 6ایم پی ایز کی بنیاد پر 2نشستیں لے اڑی جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) 16ایم پی ایز ہونے کے باوجود صرف ایک نشست حاصل کر سکی‘ جے یوآئی (ف) کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب ناکام ہو گئے‘قومی وطن پارٹی کے 10ایم پی ایز پارٹی کیلئے ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ‘ تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اپنی اتحادی جماعت قومی وطن پارٹی کے ساتھ دھوکہ کیا ‘

تحریک انصاف کے کئی ارکان کے مبینہ طور پر پھسل جانے کے باعث اس کے امیدوار خیال زمان اورکزئی شکست کھا گئے ‘صوبائی اسمبلی میں 10ارکان کی حامل قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین تعاون کا فارمولہ طے پایا تھا جس کی رو سے قومی وطن پارٹی کی حمایت کے بدلے تحریک انصاف نے اس کی خاتون امیدوار انیسہ زیب طاہر خیلی کو ووٹ دینا تھا تاہم انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی وطن پارٹی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہوگیا۔

کیونکہ قومی وطن پارٹی کی خاتون رکن نے اپنی پارٹی کے حجم کے عین مطابق صرف 10ووٹ ہی حاصل کئے‘ تحریک انصاف حکومت جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے ساتھ بھی اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکی‘ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر موصوف صرف 4ووٹ ہی حاصل کر سکے‘ جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیدوار برائے جنرل نشست اور پارٹی کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب بھی اپنے ارکان کا ووٹ لینے میں کامیاب نہ ہو سکے‘ جنرل نشست کیلئے پارٹی کے 2امیدواروں میں ان کا نام سرفہرست تھا تاہم ان کی پارٹی کے بیشتر ارکان نے ان کی بجائے دوسرے رکن طلحہ محمود کو ووٹ دئیے جنہوں نے جنرل نشست پر تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ 19ووٹ حاصل کئے ‘مولانا گل نصیب کے حصہ میں صرف 7ووٹ ہی آئے ‘خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے دوران زیادہ ہارس ٹریڈنگ کی اطلاعات سامنے آئی ہیں‘ خود حکمران جماعت تحریک انصاف کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے 17سے 18ارکان نے پارٹی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا بلکہ پیسوں کے بل بوتے پر دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دئیے اور اس حوالے سے تحریک انصاف نے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا ہے ‘ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے فیصل سخی بٹ کی کامیابی کے حوالے سے بھی متضاد دعوے سامنے آئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ فیصل سخی بٹ بھی کامیاب ہو چکے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان کو کامیاب قرار دیاگیا ہے جس پر فیصل سخی بٹ انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔

خیبرپختونخوا کے123رکنی ایوان میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 61اور جماعت اسلامی کے ممبران کی تعداد 7ہے‘ حکومتی اتحاد کو ایک آزاد رکن کی حمایت بھی حاصل ہے‘ اپوزیشن جماعتوں میں مسلم لیگ(ن) کے ارکان کی تعداد 16‘ جمعیت علماء اسلام (ف) 16‘ پیپلز پارٹی 6اور عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد 5ہے‘ ایک آزاد رکن بھی مسلم لیگ (ن) کا حمایتی ہے جبکہ قومی وطن پارٹی کے اراکین کی تعداد 10ہے‘پاکستان تحریک انصاف بآسانی 4جنرل‘ ایک خواتین اور ایک ٹیکنوکریٹس کی نشست جیت سکتی تھی۔

تاہم شرط صرف یہ تھی کہ تمام ممبران اسمبلی اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے‘ اگر اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) ‘ جے یوآئی (ف) ‘ پیپلز پارٹی‘ قومی وطن پارٹی اور اےاین پی اتحاد کرتیں تو ان کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 53ہوجاتی اور اس صورت میں اپوزیشن کا اتحاد بآسانی 4جنرل ‘ ایک ٹیکنوکریٹس اور ایک خواتین کی نشست جیتنے میں کامیاب ہو سکتا تھا ‘فاٹا کی چار نشستوں پرہدایت اللہ، شمیم آفریدی، ہلال الرحمان اور مرزا محمد آفریدی کامیاب قرارپائے ۔

فاتح ارکان 7 ، 7 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔فاٹا سے 11 اراکین نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنا تھا تاہم ان میں سے 8 اراکین نے ووٹ ڈالے۔ تین اراکین نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تحفظات کے پیشِ نظر ووٹ نہیں ڈالے۔