خواجہ آصف کا غور طلب بیان

March 11, 2018

یہ حقیقت ہے کہ غلطی تسلیم کر لی جائے تو نہ صرف ازالہ ممکن ہو جاتا ہے بلکہ مزید نقصان سے بھی بچنے کا حیلہ کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے دانشور طبقات اب نہیں ایک عرصے سے افغانستان کے حوالے سے آمرانہ ادوار کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔سویت یونین اور امریکہ کی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں نقصان کس کا ہوا؟سوویت یونینتحلیل ہوا تو امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر پوری دنیا کا حاکم بن بیٹھا۔ اور اپنے لئے اسے جو بھی خطرہ نظر آیا یا اس کا شبہ ہوا امریکہ نے بھرپور طاقت کے استعمال سےاسے روند ڈالا، زیادہ تر مسلمان ممالک زیر عتاب آئے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر اسے اپنے ساتھ ملایا، اس کے بعد کیا ہوا سب جانتے ہیں۔ پاکستان کو اس قدر جانی و مالی نقصان ہوا کہ جس کی تلافی ہی ممکن نہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ بھی جوں کی توں ہے اور ڈومور کے تقاضے بھی، گرے لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکیاں بھی ہیں اور دنیا ہمارا قومی بیانیہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں، ان حالات میں قومی اسمبلی کے فلور سے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے قوم اور مسلم امہ کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں کسی تازیانے سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے میڈ ان امریکہ جہاد کیا، نائن الیون کے بعد پھر یہ غلطی دہرائی جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، مرواتا کوئی اور ہے آلہ قتل ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے، طعنہ دیا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے سہولت کار ہیں، اب امریکی پراکسی نہیں بنیں گے، مسلمان ملکوں کے اختلافات میں فریق بننے سے انکار کر دیا ہے، مسلمان حکمران دشمن کے سہولت کار بن چکے ہیں، امت کو اب کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں، ہم اس لئے ہدف ہیں کہ دنیا کا ہر مسلمان چاہتا ہے کہ پاکستان آ کر ہمیں بچائے، ہمارے مقتدر لوگوں نے حکمرانی کی خاطر ملک بیچا۔‘‘ وزیر خارجہ کا بیان نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری مسلم امہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے لئے بھی قابل غور ہے۔ اب یہ ہمارے مقتدر طبقات کو سوچنا چاہیے کہ ماضی کی ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔یہ عقل پہلے آ جاتی تویقیناً ہمیںیہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔