حسین پاکستان، نظام بد اور آئین جمہوریہ

March 11, 2018

پاکستان قدرت کی اعلیٰ ترین ، جیتی جاگتی اور بے شمار پر کشش نعمتوں اور رحمتوں کا ایسا بدقسمت ملک ہے جو اپنے ہی حکام و سماج کی بنائی بدنصیبی میں جکڑا ہوا ہے۔قیام ملک کے 7عشرے مکمل ہونے کے بعد ہمارے اب تک کے حکمرانوں کی شیطانی حد تک اجتماعی خود غرضی اور انتہا کی سماجی پسماندگی نے ہمیں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اقوام کی ترقی کی دوڑ میں سب ہی بنیادی اور حساس شعبہ ہائے زندگی کی درجہ بندی سے کتنا ہی پیچھے دے مارا ہے۔ اتنا کہ ، کیا ہمارے لیڈر اور کیا ہم(سماج) جنہوں نے مل کر قدرت کی عطا، بیش بہا عنایات پر اپنے ہی پست رویوں سے بنائے نظام بد کو غالب کر دیا ، لیکن اب بھی ہم بزرگوں کے قبل ازآزادی کے تاریخ ساز تہذیبی رویے کی طرف لوٹنے کو تیار نہیں، گویا ہمارا اسٹیٹس کو کنکریٹ کی دیوار کی مانندہے جس کا انہدام محال، جبکہ اس سے کہیں زیادہ طاقت کی عالمی علامت دیوار برلن کو منہدم ہوئے بھی 25برس بیت گئے۔ ہمارے ہاں تو جو تبدیلی و لچک پیدا ہوئی اور ہو رہی ہے، وہ اٹل قدرتی راہوں میں سے ایک ہےجس میں ان ہونیاں بھی، ہونی ہو رہی ہیں۔ ذرا سنئے!تین مرتبہ اسلامی جمہوریہ کے بن جانیوالے ہمارے سابق اور قانون کی عدالت سے نا اہل ہو جانے والے وزیر اعظم جناب نواز شریف نے گزشتہ روز بہاولپور میںوفا شعار بینی فشریز کی لگائی پر ہجوم’’عوامی عدالت‘‘ میںآبزرویشن دی کہ ’’ظلم کا نظام 70سال سے جاری ہے،اسکے خلاف بغاوت کرتا ہوں۔‘‘ یعنی اس نظام بد کے خلاف جس کی تشکیل کے قریباً 50فیصد ذمے دار خود میاں صاحب ہیں(یوں کہ اگر تشکیل کی ذمے داری کا تعین اقتدار کی مدت کی بنیاد پر ہو) اپنے 35سال کے اقتدار میں نظام بد کی نصف ذمے داری تو آپ کو تسلیم کرنا ہی ہو گی ۔ایسے کہ خلاف آئین ، اقتدار میں عوام کی شرکت روکے رکھنے کے لئے بلدیاتی نظام کے انعقاد سے دانستہ گریز، دیدہ دلیری کی حد تک کینہ پروری، شدید سماجی پسماندگی کے گارے سے صوبائی و قومی اسمبلیوں حتی کہ (اب بھی) ایوان بالا کی جمہوریت کش تشکیل ، قیومی عدلیہ اور سیف برانڈ احتساب، تھانہ کچہری کی مجرمانہ وسعت ،بے پناہ مالی کرپشن،مکمل بےپرواہی سے عوامی خدمات کے اداروں کا اجاڑ اور اپنے خاندان کو فلسفہ جمہوریت سے تصادم کرتے شاہی خاندان میں تبدیل کرنیکی ممکنہ سعی جو تادم جاری ہے ۔ 70سال کےعلانیہ ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت کی بھی تو میاں صاحب نے غیر آئینی اور اپنی حامی عوامی عدلیہ میں کی ۔ گویا وہ مایوس کن اور عوام دشمن نتائج دینے والے اسٹیٹس کو کو اب ایک خطرناک شکل دینے کی طرف مائل ہوتے معلوم ہی نہیں دے رہے، خود اس کا اعلان کر رہے ہیں۔ اور تو اور اپنی لاڈلی صاحبزادی کو بھی سیاست کا آغاز کرتے ہی اس طرف لگا دیا یا محترمہ نے والد محترم کو اس راہ پر لگا کر اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ اب یہ تجزیہ کاروں کا کام ہے کہ وہ اس کا تجزیہ کر کے قوم اور میاں صاحب کو بھی اس سے آگاہ کریں کہ وہ کس راہ پر چل پڑے۔!
ایک طرف پاکستان کی بدنصیبی کا عالم ملاحظہ ہو کہ اسٹیٹس کو کے خلاف علم بغاوت سے بھی یہ ختم ہونے کی بجائے ’’عوامی عدالتوں‘‘ کی سماجی پسماندگی سے مزید مہلک شکل اختیار کر رہا ہے، دوسری جانب اسٹیٹس کو کی تشکیل سے بچی ہماری قومی سیاست کی نومولود اپوزیشن کو اپوزیشن بننا ہی نہیں آیا۔ وہ پارلیمان میں نظام بدکے اصل کھلاڑیوں کے مقابل آنے سے گریزاں رہی۔ اس کی قانون سازی اور بدتر حکمرانی کی پارلیمانی مزاحمت کی صلاحیت اب ٹیسڈ اور مایوس کن ہے۔ ہاں!اللہ تعالی نے مزید اور مسلسل لٹتے لٹتے پاکستان پر پانامہ نازل کر کے بذریعہ احتجاج اور عدلیہ قوم کو آئین و قانون کی راہ دکھا دی۔ جتنوں نے دیکھی اور جتنی دیکھی اور بمطابق شعور کا مظاہرہ کیا، اسکی برکت سے بگڑتی اجڑتی مملکت، بمشکل اسلامیہ جمہوریہ کی طرف گامزن ہوئی جسکی سب سے بڑی علامت احتسابی عمل ہے۔
دوسری جانب ہمارے بزرگوں کے آئندہ نسلوں کے لئے بنائےوطن کے وہ صدا بہار نقوش پا ہیںجن پر ہماری نظر ہی نہیں جاتی۔ جن پر فطری حسن کے عالمی متوالے تو رشک کرتےہیں لیکن ہم پاکستانی کفران نعمت کے رویےمیں مبتلا ان کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوتے جو اپنے انتہائی پرکشش طبعی جغرافیے اور بیش بہا فطری حسن کے باعث شہرہ آفاق ہیں۔ دنیا انہیں ہم سے زیادہ سمجھتی، جانتی ہے۔ اس کے مقابل اب ہمیں وہ صرف دہشت گردوں کی آماجگاہ، شدت پسند اور سماجی و سیاسی پسماندگی اور بدتر حکومت کے حوالے سے جانتی ہے۔ حالانکہ ہم عالمی شہرت کے گلگت، بلتستان کو قدرت کی مہربانی رحمت و نعمت کے شکرانے کےطور پر مینج کریں اور اس کو زیادہ سے زیادہ مین لینڈ اور خود اس سے منسلک ہو کر استفادہ کریں تو ہم بطور مملکت قوم بھی دنیا کے حسن نظر میں آ جائیں گے۔
اس اہم قومی ضرورت کی ایک اہم علمی کاوش میرے استاد گرامی اور رفیق کار پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے کی ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں درس و تدریس کی طویل وابستگی اور سربراہی کے دوران پھر بعداز ریٹائرمنٹ بھی اپنی شعوری کوششوں اور ذوق جمال کے باعث کوئی پانچ چھ سال تک گلگت وبلتستان سے وابستہ رہے۔ امتحانات کے انعقاد اور گلگت کی پہلی یونیورسٹی، انٹرنیشنل قراقرم یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کےبانی سربراہ کی حیثیت سے انہوںنے گلگت اور سکردو میں بیسڈ ہو کر پاکستان کے شہرہ آفاق اس بالائی خطے کا جو مطالعہ و مشاہدہ کیا وہ بے حد منفرد، سائنٹیفک اور خطے کو مختصر ترین وقت میں ایٹ لارج سمجھنے، اسکی اہمیت سے آگاہ ہونے کا بھرپور سامان ہے جو پروفیسر صاحب نے سیاحت کے حوالےسے ’’امریکہ نامہ‘‘ کے بعد 250صفحات پر مشتمل تازہ تصنیف ’’ حسین ترین پاکستان، گلگت و بلتستان‘‘ کے ذریعے مہیاکیا ہے۔ ڈاکٹرشفیق جالندھری نےاپنے 45 سالہ طویل پیشہ تدریس میں مختلف وقفوں سے جو پانچ چھ سال شمالی علاقہ جات میں گزارے، وہ پیشہ ورانہ فرائض سے آگے، ایک ماہرترقیاتی ابلاغ، رورل سوشیالوجسٹ اور ایک سچے کھرے اور ذمے دار پاکستانی کی ایسی علمی اور منفرد کاوش ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے جنت بے نظیر پاکستان کے اس خطے کا احاطہ 38 زاویوں سے کیا ہے، جو زیر نظر تصنیف کا انڈکس ہے۔ مصنف نے اپنے تجربے، شعور اور علمیت کی بنیاد پر پاکستان کے اس شہرہ آفاق خطے کا مختلف اشکال میں بے پناہ فطری حسن،ثقافت، سماج اور سماجی رویے، اقتصادیات اور منفرد اور انتہائی پرکشش طرز زندگی کو ایسے پرکشش اسلوب میں سمویا ہے، وہ پڑھنے والے میں شمالی علاقہ جات کی سیاحت کی ہوک پیدا کردیتا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر شفیق جالندھری کی یہ تصنیف ہر باشعور اور خواندہ پاکستانی خصوصاً نوجوانوں کیلئے انکی زندگیوں میں ذہنی وسعت پیدا کرنے اور ان میں نئی تحریک پیدا کرنیکا پراثر سامان ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ سی پیک کے حوالے سے اس کتاب کی اہمیت بے حد ہے، تاہم اسکا انگریزی میں ترجمہ کرکےاسکی بیرون ملک ترسیل کا اہتمام ضروری ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم اور سرزمین ہر دو کا حسن و خواص، ہماری اس مسلسل سیاسی بحرانی کیفیت میں مغلوب ہو کر رہ گئے، جو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی سے گریز اور حکمرانوں اورسماج میں ان کے معاون طاقت ور طبقات کاتشکیل دیا ہے۔ الحمدللہ، قدرت نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی عملداری کی ضرورت اور شعور دونوں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک عندیہ یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا کے سیاسی مذہبی سکالر جناب محمد اسرار مدنی نے تحقیق پر مبنی ’’اسلام جمہوریت اور آئین پاکستان‘‘ کے نام سے 136صفحات پرمشتمل ایک بہت قابل توجہ رہنما کتابچہ ترتیب دیا ہے جو مجلس تحقیقات اسلامی نے شائع کیا ہے۔ پاکستان میں آئینی وسیاسی تاریخی حوالوں سے یہ تصنیف موجودہ ملکی صورت حال میں آئین و سیاست میں دلچسپی لینے والے باشعور شہریوں کیلئے انتہائی مفیدہے۔ اس کی روح کا اندازہ کتاب کے انتساب سے ہوتا ہے۔ ’’ان تمام اہل علم و دانش کے نام جنہوں نے وطن عزیز میں انتہا پسندی کے خلاف آپریشن ضربِ فکر میں حصہ لیکر پاکستانی قوم کو جگایا۔‘‘اصل میں یہ کتابچہ دہشت گردی کے ہم پر مسلط ماحول کے مقابل ایک مدلل اور کائونٹر بیانیہ ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998