شام کی جنگ کے مال غنیمت کے لئے روسی کاروبار کو فوقیت

March 12, 2018

ماسکو سے کیتھرین ہل

ہنری فوئے اور میکس سیڈون

رواں ہفتے مشرقی غوطہ میں ہولناک بمباری روکنے کیلئے جیسا کہ روس پر دباؤ میں آیا ہے کہ شام میں اپنا اثرورسوخ بروئے کار لائے، جنگ سے متاثرہ عرب ریاست میں کاروباری امکانات پر تبادلہ خیال کیلئے روسی حکام کانفرنس روم میں جمع ہوئے۔

شام میں ماسکو کے فوجی کردار سے فائدہ اٹھانے کی امید لئے روسی چیمبر آف کامرس میں روسی شام بزنس فورم میں شرکت کیلئے دو سو سے زائد کاروباری افراد جمع تھے۔ انہوں نے پاور اسٹیشنز انجینئرنگ خدمات سے جہاز رانی تک ہر چیز فروخت کے لئے پیش کی کیونکہ ان کی نظریں جنگ کے خاتمے کے بعد ہونے والے معاہدوں پر ہیں۔

چیمبر آف کامرس کے صدر سرگی کیٹرن نے کہا کہ شام کی معیشت کی بحالی کے لئے دو سو کھرب ڈالر سے لے کر پانچ سو کھرب ڈالرز کی ضرورت ہوگی اور جیسا کہ شام کے صدربشار الاسد نے کہا ہے کہ پہلی ترجیح روس کے کاروباری افراد کو دی جائے گی۔

شام کے سرکاری حکام ماسکو میں ایک اجتماع میں 26 منصوبے ظاہر کئے جن میں دمشق روسی سرمایہ کاری چاہتا ہے۔ ان میں شام کے دارالحکومت سے اس کے ایئرپورٹ تک ریلوے لائن سے رابطہ، ٹائرز اور خمیر سے سیمینٹ تک ہر شے بنانے کے صنعتی پلانٹس اور ملک میں بجلی کی پیداوار کے منصوبے شامل ہیں۔

تاہم منصوبوں کو اہم ترین چیلنجز میں سے ایک کہ ادائیگی کون کرے گا، کا سامنا ہے، ماسکو جس نے 2015 میں شام میں فوجی مداخلت کی اور جنگ کا توازن بشارالاسد کے حق میں کردیا،اب یورپی ممالک کی حکومتوں سے شام کی تعمیر نو کی کوششوں کیلئے امداد حاصل کرنے کیلئے بیتاب ہے۔لیکن یورپی ممالک کا اصرار ہے کے پہلے تنازع کے خاتمے کا سیاسی معاہدہ ہو اور تعمیر نو کا فنڈ بشارالاسد کے ہاتھوں میں نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

شام کی ریاستی پلاننگ ایجنسی کے یورپی شعبہ کے ڈائریکٹر طارق الجواہر نے کہا کہ ہم جانتے ہیں ہماری کیا ضرورت ہے اورہمیں معلوم ہے ہمارے روسی دوست اصولی مدد کرسکتے ہیں،لیکن یہ ایک واضح سوال ہے کہ پیسہ کہاں سے حاصل کیا جائے؟

تیل اور گیس جس میں روس کی سب سے زیادہ دلچسپی ہے، کے مقابلے میں اب یہ سب سے فوری سوال ہے۔ مغربی پابندیوں کا مطلب ہائیڈورکاربن میں نئی سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ دستیاب نہیں ہے اور شام کو تیل کی پیداوار کا سامان یا خدمات فراہم کرنے والی کسی بھی روسی کمپنی کو تادیبی اقدامات کا خطرہ ہے ۔

روسی آئل فلیڈ کی خدمات کی کمپنی ریما میں برآمدات کے شعبہ کے سربراہ دیمتری کاپیتونوف نے کہا کہ گزشتہ سالہ میں نے شام کے متعدد دورے کئے لیکن ابھی تک وہاں کچھ نہیں ہے جو ہم کرسکتے ہیں۔میں حمس اور دمشق دونوں شہروں میں گیا اور یہ خاموش اور محفوظ محسوس ہوئے، لیکن یہ ابھی بھی غیر واضح ہے کہ شام کے تیل پر مغربی پابندیاں لگ گئی ہیں تو ہم کاروبار کیسے کرسکتے ہیں۔

جنگ سے قبل شام کی حکومت کی آمدنی میں تیل اور گیس کا چوتھائی حصہ تھا۔تاہم 2017 میں گیس کی پیداوار جنگ سے قبل کی سطح سے نصف ہوگئی اور تیل کی پیداوار تین لاکھ تراسی ہزار بیرل فی دن سے کم ہوکر آٹھ ہزار بیرل فی دن رہ گئی۔

اب ماسکوکی اس کی کمپنیوں کو صنعت میں سب سے پہلے اور دوبارہ چلانے کی کوشش ہے۔

روس کی نشینل ایسوسی ایشن آف آئل اینڈ گیس سروس کے صدر وکٹر کھیخوف نے کہا کہ رواں ماہ روس کے وزیر توانائی الیگزینڈر نواک نے اپنے شامی ہم منصب کے ساتھ تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس کا اطلاق شام کے منصوبوں میں روسی کمپنیوں کی شرکت اور باقاعدگی سے مذاکرات کے انعقاد پر ہوتا ہے۔

وکٹر کھیخوف نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت شام کی تیل و گیس کی صنعت تباہ ہوچکی ہے یا بدترین حالت میں ہے، اس کی بحالی میں حصہ لینے سے روسی کمپنیوں کا منافع بخش مستقبل ممکن ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان منصوبوں میں شامل کمپنیوں کو ملک کے خطرات کے لئے اضافی فوائد حاصل کرنے کا ملے گا۔

تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مغربی پابندیوں سے متاثر ہوئے بغیر وہ کیسے شام کی صنعت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ روس کی اہم تیل و گیس کی صنعتوں نے شام میں سرمایہ کاری کے امکانات پر تبصرے سے انکار کردیا۔

فی الحال شام میں اپنی پوزیشن کے لئے کچھ کاروباری ادارے غیر روایتی طریقے استعمال کررہے ہیں۔طارق الجواہر نے کہا کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھی سے تعلق رکھنے والی ایوروپلس کمپنی، روسی نجی فوجی ٹھیکیداروں کی جانب سے داعش سے فتح کیئے گئے علاقوں میں شام کے تیل کے کنوؤں سے آمدنی حاصل کررہی ہے۔

روسی ویب سائٹ فونٹانکا نے گزشتہ سال رپورٹ کیا کہ کرائے کے سپاہیوں نے سودوں کو بچالیا جس کے تحت انہیں آئل فلیڈز سے آمدنی میں حصہ ملے گا جن پر انہوں نے قبضہ کیا تھا لیکن طارق الجواہر پہلے عہدیدار ہیں جنہوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کتنے کنویں ہیں اور وہ کتنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ لیکن دیگر بھی ہیں۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہوسکتا ہے جو پابندیوں سے متعلق مسئلے کے حل میں مدد کرتا ہے۔

کمپنی کے ایک اہم حمایتی ییوگنی پریگوزن روس کو ہدف بنانے والی پابندیوں کے تحت ہیں۔نہ ہی وہ یا ایوروپولس سے تبصرہ کے لئے رسائی حاصل ہوسکی۔

گزشتہ ماہ امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں کئی روسی کرائے کے سپاہی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے ،جس نے روک دیا جو نظر آرہا تھا کہ شام کی حکومت تیل کی سہولتوں کے کنٹرول کیلئے حملہ کررہی ہے۔

شام میں ایک اور پرائیوٹ سیکیورٹی کنٹریکٹر چالنے والے الیگزینڈر لونو نے کہا کہ وہ شام میں کمپنی کے شریک مالک تھے جس نھ حمس میں دو آئل فیلڈز خریدیں۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہتا، بی 52 پرواز کررہے ہیں۔امریکی حمایت کے ساتھ کرد حملے کررہے ہیں۔ یہ بہترین سرمایہ کاری کا ماحول نہیں ہے۔

پھر بھی، مشرق وسطیٰ کے روسی ماہرین نے کہا کہ ماسکو کا غیر معمولی نکتہ نظر بحالی کے عمل کی توثیق ہے جہاں مغرب کی بجائے روس قوانین طے کرے گا۔

سعودی عرب کیلئے سابق روسی سفارتکار اینڈری باکلانف نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ حتیٰ کہ اگر مغرب شام کی معاشی بحالی پر منفی رائے رکھتا ہے، عالمی صورتحال اب مختلف ہے۔شام پہلی اقتصادی جنگ کا میدان بن سکتا ہے جہاں تعمیرنو اور مزید ترقی ایک نئے ماڈل کی پیروی کرے گا۔