سندھ اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں بڑھنے لگیں

March 15, 2018

جمشید بخاری

سینیٹ انتخاب کے بعد صوبے میں عام انتخابات کے لیے سیاسی گہماگہمی بڑھنےکا امکان ہے اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایم ایم اے بحال ہوجائے گی کہاجارہا ہے کہ ایم ایم اے کو سینیٹ کے انتخاب سے قبل اس لیے بحال نہیں کیا گیا تاکہ جمعیت علماء اسلام چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر اپنے پتے آزادانہ طور پر کھیل سکیں اور ایم ایم اے کے رہنماؤں کے فیصلے ان کے آڑے نہ آئے مارچ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کراچی کا ایک اور دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

گزشتہ دورہ کراچی گرچہ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہواتھا تحریک انصاف کے اندردھڑے بندی نے دورے کو بھی متاثر کیا تھا تاہم اگر عمران خان کراچی کے اسی طرح تواتر سے دورے کرتے رہے تو انہیں کراچی میں بہترپوزیشن مل سکتی ہے دوسری جانب مسلم لیگی کارکنوں کی شدید خواہش کے باوجود مسلم لیگ کی مرکزی قیادت سندھ کا دورہ کرنے سے کترارہی ہے سندھ کے عوام کے پاس پی پی پی کا متبادل نہیں ہے میاںنوازشریف اگر پنجاب کی طرح سندھ پر بھی توجہ دیں تو انہیں عوامی پذیرائی مل سکتی ہے۔

انہیں سندھ اورکراچی کی تنظیم نو بھی کرنا ہوگی ناراض رہنماؤں کو بھی مناناہوگا دوسری جانب اپیکس کمیٹی کے 22 ویں اجلاس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین اور اہلخانہ سے منسوب 62 عمارتوں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کی منظوری دے دی گئی، اجلاس میں سیف سٹی پروجیکٹ سے متعلق خدشات کااظہار کیا گیا کہ نیب سندھ کی مداخلت کے باعث اس میں تاخیر ہوئی لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ نیب کواعتماد میں لے کر منصوبے کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس کے کانفرنس روم میں وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ کی زیرصدارت ہوا۔

اجلاس میں وزیرداخلہ سہیل انورسیال، وزیراطلاعات ناصرشاہ ، وزیرقانون ضیاالحسن لنجار، چیف سیکریٹری رضوان میمن ، کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا، ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمدسعید، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ودیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ آئی جی سندھ اور سیکریٹری داخلہ نے مدارس سے متعلق قانون کے مسودے پر بریفنگ دی۔

کراچی سیف سٹی منصوبے سے متعلق اپیکس کمیٹی اجلاس میں بتایاگیا کہ نیب نے اس منصوبے میں مداخلت کی اور نیب کی وجہ سے سیف سٹی منصوبہ تاخیر کا باعث بنا۔اجلاس میں تجویز دی گئی کہ اگر اسٹریٹ کرائم میں فائر کیاجائے تو اسے اے ٹی سی کے زمرے میں لایا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ میں چاہتاہوں ہر حال میں اسٹریٹ کرمنلزکو سخت سے سخت سزا ملے۔

انہوں نے کہاکہ جو بھی ترمیم کرنی ہیںکریں شہریوں کو ہرحال میں تحفظ فراہم کرنا ہے وزیراعلیٰ سندھ نے وزیرقانون کو ہدایت کی آئندہ 2 ہفتوں میں اسٹریٹ کرائمز کی سزائیں سخت کرنے سے متعلق قانونی مسودہ منظوری کے لیے بھیجیں۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ الطاف حسین اور ان کے خاندان کے نام سے 62 عمارتیں اور سڑکیں ہیں ان تمام ناموں کو تبدیل کرنے کی منظوری دی جائے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ اس فیصلے کی کابینہ سے پہلے ہی منظوری دی جاچکی ہے۔ادھرسندھ اسمبلی نے اپوزیشن کے سخت احتجاج اور مخالفت کے باوجود سرکاری جامعات میں چانسلر کے اختیارات گورنرسندھ سے وزیراعلیٰ کو منتقل کرنے کا بل " سندھ یونیورسٹیز اینڈانسٹی ٹیوٹس لاز ترمیمی بل 2018ـ"

کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ اپوزیشن نے بل کی منظوری کے وقت احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں اورایوان سے واک آئوٹ کیا۔

اپوزیشن کی عدم موجودگی کے دوران سہیل یونیورسٹی اور ٹنڈومحمدخان یونیورسٹی کے بل بھی منظور کرلئے گئے ایوان میں 6 وزراء کی غیرحاضری کے باعث اراکین کی تحاریک التواء موخر کردی گئیں ایوان کی کارروائی کے دوران سینئروزیرپارلیمانی امور نثاراحمد کھوڑو نے سندھ کی سرکاری جامعات اور بعض دوسرے تعلیمی اداروں کے قوانین کا ترمیمی بل پیش کیا۔

جس کے تحت یونیورسٹی میں چانسلر کے اختیارات وزیراعلیٰ کو منتقل کرنے کی ترمیم شامل تھی۔ اپوزیشن نے بل پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالی اور شورشرابہ کیا۔ اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ ان کے جانے کے بعد بل کوکثرت رائے سے منظورکرلیا گیا۔ اپوزیشن نے اس بل کو صوبے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انتہائی خطرناک قراردیا۔

اس بل کے ذریعے صوبے کی 23 سرکاری جامعات اور 2 انسٹی ٹیوٹس کے قوانین میں ترامیم کی جائیں گی۔ بل کی منظوری کے بعد تمام سرکاری یونیورسٹیز اور ڈگری جاری کرنے والے اداروں کے حوالے سے گورنرسندھ کا کردارختم ہوگیا۔ گورنرکسی بھی یونیورسٹی کا چانسلر نہیں ہوگا۔ گورنرکی جگہ وزیراعلیٰ سندھ کے پاس چانسلر کے اختیارات ہوں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ ہی یونیورسٹیزاور ڈگری جاری کرنے والے دیگر اداروں کے وائس چانسلرز، پرووائس چانسلرزوغیرہ کا تقررکرے گا۔سندھ اسمبلی میں ایوان کی کارروائی کے دوران صوبائی وزرا کی عدم موجودگی کے باعث توجہ دلاؤ نوٹس پیش نہ کئے جاسکے۔ 5ارکان کے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب نہیں آسکاجس پر ڈپٹی اسپیکرشہلارضا نے بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ طریقہ درست نہیں کہ وزراایوان میں نہیں آتے۔

ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے نشاندہی کی کہ وزیرترقی نسواں ، وزیرداخلہ، وزیرایکسائز ایوان میں موجود نہیں۔ انہوںنے ڈپٹی اسپیکر سے بھی شکایت کی کہ نمازجمعہ فرض ہے لیکن آپ نمازکاوقفہ نہیں کرتیں انہوں نے کہاکہ میں اجلاس چھوڑ کر نمازجمعہ کے لیے جارہاہوں جس پر شہلارضا نے کہاکہ آپ لوگ طے کرلیں مجھے وقفہ دینے پر اعتراض نہیں، 10 سال میں پہلی مرتبہ یہ بات سن رہی ہوں سرداراحمد نے کہاکہ آپ غلط کہہ رہی ہیں میں نے بھی متعدد مرتبہ نمازجمعہ کے وقفے کی درخواست کی ہے لیکن کسی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

انہوں نے کہاکہ 2 جمعے چھوٹ جائیں تو کیا ہوتا ہے معلوم ہے؟سندھ اسمبلی کے اجلاس میں قائمقام اسپیکر سیدہ شہلارضا اور اپوزیشن کے مختلف ارکان کے مابین تلخ کلامی کے بعد ایم کیوایم کے رکن اسمبلی محمدحسین نے قائمقام اسپیکر شہلا رضا کے انداز گفتگو پر اعتراض اٹھایاتوشہلارضا نے کہاکہ وہ اسی انداز میں بات کریں گی جوکرنا ہے کرلیں مزیدتکرار پرقائمقام اسپیکر نے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمدحسین کو سارجنٹ ایٹ آرمزکے ذریعے ایوان سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا۔

جبکہ محفوظ یار خان نے تلخی کے بعد واک آؤٹ کیا۔ قائمقام اسپیکر کی خرم شیرزمان سے نوک جھوک ہوئی اپوزیشن ارکان نے شہلارضا کے رویے کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور شروع کردیا۔ جمعرات کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کے آغاز میں محفوظ یار خان نے قائمقام اسپیکر سے کہاکہ آپ نے گزشتہ روز جو زبان استعمال کی تھی وہ مناسب نہیں تھی آپ نے کہا تھا ایسی آوازیں آرہی ہیں جیسے کوئی بھونک رہا ہو، سیدہ شہلارضا نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ آپ تین ارکان ایک ساتھ کھڑے ہوکر جو کچھ کررہے تھے کیا وہ مناسب تھا۔

محفوظ یارخان نے ان سے کہاکہ وہ یہ الفاظ حذف کریں قائمقام اسپیکر نے محفوظ یارخان سے کہاکہ وہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں ورنہ وہ ان کے لیے کوئیخصوصی حکم دے سکتی ہیں قائمقام اسپیکرکی سرزنش پر محفوظ یارخان ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کرکے چلے گئے۔سندھ اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں۔

ادھر سندھ اسمبلی میں قائدحزب اختلاف کی تبدیلی کےلیے اپوزیشن جماعتوں نے غورکرنا شروع کردیا ہے ایم کیو ایم (پاکستان) کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے سے رابطے کرکے نیا اپوزیشن لیڈر لانے پراتفاق کیا ہے۔ مسلم لیگ(فنکشنل) کی خاتون رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی متوقع تبدیلی کی صورت میں قائدحزب اختلاف کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار ہوں گی۔