قبائلی تصادم: قیام امن کے لیے آپریشن رد الفساد کی ضرورت ہے

March 18, 2018

غلام مرتضی ابڑو،شکارپور

ضلع شکارپور میںگزشتہ دو عشرے میںقبائلی تنازعات کی وجہ سے بے شمارگھرانے اُجڑ چکے ہیں، جن میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ان واقعات کی مناسب روک تھام نہ ہونے کی وجہ سے ضلع کا کوئی بھی علاقہ متحارب گروپوں کے درمیان مسلح تصادم کی لپیٹ میں آکر میدان جنگ بن جاتا ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران ان واقعات میں تیزی آگئی ہے اور تین مختلف واقعات میںاب تک 9افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اس سلسلے کا پہلا واقعہ تھانہ رُستم کے گاؤں شہداد شر میں کچے کے علاقے میں پیش آیا،جہاں سرکاری پلاٹ پرقبضے کے حوالے سے کافی عرصے سے شرقبیلے کے دوگروپوں کے درمیان تنازعہ چل رہا ہے۔

کچھ عرصے سے اس میں اس قدر شدت پیدا ہوگئی کہ 24فروری کوماموں بلاول شر نے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ اپنے بھانجوں پر حملہ کردیا۔

حملہ آوروں نےشدید فائرنگ کرتے ہوئےدو بھائیوں30سالہ سدھایو شر اور 20سالہ شعبان شرکو ہلاک جب کہ تیسرے بھائی اللہ ودھایو شراور ان کے چچا غلام حسین شراور علاقے کے بزرگ داداٹکر شرکو شدید زخمی کردیا۔پولیس حسب معمول جائے وقعہ پر تاخیر سے پہنچی، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشوں اور زخمیوں کو خان پوراور شکارپوراسپتال پہنچایا۔

پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے جب کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارےگئے لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

دوسرا واقعہ یکم مارچ کو پیش آیا جس میں سب ڈویژن سلطان کوٹ تھانہ جہاں واہ کی حدود گاؤں ڈیئا میں سنجرانی اور ڈیئا برادریوں کے درمیان بچوں کے جھگڑے نے خوں ریزی کی صورت اختیار کرلی۔

دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلے میں ڈئیا قبیلے کےتین افراد،انتظارعلی ولدمحمد نواب ڈیئو ، محبت علی ولد محمد مٹھل ڈیئو اور عبدالرحیم ولد عبدالرزاق سنجرانی جاں بحق ہوگئے، جب کہ سنجرانی برادری کے تین افراد شدید زخمی ہوگئے،جن میں غلام مرتضیٰ ولد عبداللطیف سنجرانی،آصف علی ولد جعفر سنجرانی اور مشتاق سنجرانی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے آصف علی کوتشویش ناک حالت میں کراچی منتقل کردیا گیا۔

مسلح تصادم کی اطلاع ملتے ہی ڈی ایس پی سلطان کوٹ، سردار احمد چانڈیو کی 10سے زائد تھانوں کی نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچےاور فوری کارروائی کرتے ہوئےحالات پر قابو پایا لیکن صورت حال ابھی بھی کشیدہ ہےاوردونوں متحارب فریق مورچہ بند ہوکر بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا ہے۔آئی جی سندھ، اے ڈی خواجہ نےمذکورہ واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی شکارپور عمر طفیل سے واقعے کی مکمل تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

قبائلی تصادم کا تیسرا واقعہ تین مارچ کو تحصیل خانپور میں تھانہ ناپر کوٹ کی حدود گاؤں مہران خان بجارانی میں پیش آیا،جہاں تیغانی اور بجارانی قبائل کے درمیان مویشیوں کی چوری اور زرعی اراضی پرکئی برسوں سےجاری دیرینہ تنازعہ نے مسلح تصادم کی صورت اختیار کرلی اور پورا علاقہ میدان جنگ بن گیا۔

فائرنگ کے تبادلے میں دونوں گروپوں کےچار افراد شاہد محمود بجارانی،سلیمان عرف پکھی تیغانی،محمد صالح تیغانی اور گل حسن تیغانی ہلاک جب کہ ارباب تیغانی،محبوب تیغانی اور سرور تیغانی شدید زخمی ہوگئے۔پولیس نے موقع پر پہنچ کر صورت حال پر قابو پایا۔دونوں فریقین نےاس واقعے پر ایک دوسرے کو مؤرد الزام ٹھہرایاہے۔

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں مارے جانے والے تیغانی قبیلے کے تینوں افراد پولیس کو مطلوب تھے۔جن میں سے صالح تیغانی نامی ملزم کی گرفتاری پر حکومت کی جانب سے 5لاکھ روپے انعام مقرر کیا گیا تھا۔برسوں سے جاری دونوں قبیلوں کے تنازعے میں اب تک17سے زائد افراد ہلاک جب کہ بے شمار زخمی ہوچکے ہیں۔

بیس سال کے عرصے میں قبائلی تنازعات میں جہاں ہزاروں افرادہلاک ہوئےہیں ہیں، وہیںان علاقوں میں کاروبار تباہ اوربچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔مستقبل کے معماروں کو تعلیم سے دُور رکھ کر ، ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمادی جاتی ہیں۔

کئی تنازعات کےجرگوں کے ذریعے تصفیے کرائے جاچکے ہیں جن میں متعلقہ برادریوں پر بھاری جرمانے بھی عائد کئےگئے، دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے معاہدہ طے پایا لیکن کچھ ہی عرصے بعد جرگے کے فیصلے عی خلاف ورزی کرکے دونوں متحارب گروپ دوبارہ صف آرا ہوگئے۔

قبائلی تنازعات کی وجہ سے شکار پور کے بیشتر علاقے مختلف قبائل کے افراد کے لیے ’’نو گو ایریاز‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ جنوری کےپہلے ہفتے میںضلع میں امن و امان کے قیام کے لیے پولیس اور رینجز کے مشتکہ آریشن کا فیصلے کیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ ہنوز تعطل کی شکار ہے ۔ضلع میں امن و امان کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔

قبائل کے درمیان خوں ریزی کے علاوہ اغوا کی واردوتوں میں بھی تیزی آئی ہے اور صرف نیا سال شروع ہونے کے بعد صرف تین ماہ کے عرصے میں اغوا برائے تاوان کے دس واقعات پیش آچکے ہیں۔ منتخب نمائندے اور سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔اس ضلع میں بھی آپریشن ردالفساد کی ضرورت ہے۔

اگر شکار پور ضلع میں امن و امان کے قیام کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔