ارض و سماء: ’’پولیتھین بیگز‘‘

March 21, 2018

پاکستان میں کچھ عرصے سے پلاسٹک بیگز کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ،اب ہر چیز ان بیگز میں لینا،دینا ایک فیشن بن گیا ہے،شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک جدید کیمیائی صنعت میں بہت سستی اور عام شے ہے ،جس کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے ۔یہ اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہو گئی ہے کہ ہم روزانہ پلاسٹک کے بیگز ضرور استعمال کرتے ہیں ۔یہ بہت ہلکے اور سستے ہوتے ہیں ۔ اسی لیے زیادہ استعمال میں آتے ہیں ۔

لیکن ان کے مضر اثرات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ اس کی وجہ سے ماحول میں جو آلودگی پھیل رہی ہیں ، وہ انسانی جانوں کے لیے کس قدر خطرناک ہے ۔ہمارا ماحول عدم توجہی کے باعث انتہائی آلودہ ہوچکا ہے ۔کیمیائی اشیاء کا بے دریغ استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی گندگی ماحول کو آلودہ کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔

ہماری لاپرواہی کی وجہ سے ہی پانی ،ہوا ،زمین ،چرند پرند ،حیوانات ،انسان ،درخت اور پودے سب ہی آلودگی سے دوچار ہیں ،گر چہ پلاسٹک بیگز استعمال کرنے کے بعدپھینک دیئے جاتے ہیں لیکن یہ اپنی کیمیائی خصوصیات کے باعث گل سڑ کے مٹی ،پانی اور ہوا میںشامل ہوکر ماحول کو گندہ کردیتے ہیں ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پلاسٹک ایک پولیمر ہے، جس کو مختلف کیمیائی اجزاء سے تیار کیا جاتا ہے ۔

ان کی عموماً دو اقسام استعمال ہوتی ہیں ،جن میں سے ایک قدرتی ہے جو درختوں اور جانوروں سے حاصل کی جاتی ہے ،جب کہ دوسری لیبارٹری یا فیکٹریوں میں تیار کی جاتی ہے ۔ دراصل یہ ایک سیال مادہے جسے بآسانی کسی بھی شکل اور رنگ میں ڈھالا جاسکتا ہے ۔اس کیخاص بات یہ ہے کہ اسے نرمی اور ملائمت کی کسی بھی حد تک بآسانی پہنچایا جاسکتا ہے ،اسی خصوصیات کی بناء پر اس کا استعمال روزبہ روز بڑھتا جارہا ہے ۔اب لو گ پولیتھین سے بنے لفافے بھی استعمال کررہے ہیں ،جب کہ ان کو ضائع کرنے کا کوئی موثر انتظام نہیں ہے ۔

پلاسٹک کے لفافوں اور تھیلیوں کو بلاتر دد گلی کوچوں ،سڑکوں ،نالیوں ،دریائوں ، باغیچوں ،حتٰی کہ گھر کے صحن میں بھی پھینک دیا جاتا ہے ۔مختلف شہروں اور علاقوں میں اس کی وجہ سے سیوریج کا نظام در ہم برہم ہوجاتا ہے ، نتیجے میں علاقے میں بدبو ،گندگی اور مختلف بیماریاں پھیل جاتی ہیں ۔ کھلی جگہوں پر پھینکے گئے پولی تھین بیگز مویشی بھی کھالیتے ہیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتےہیں۔

آبی ذخائر بھی پولیتھین لفافوں کی آماجگاہ بن رہے ہیں ،جس کی وجہ سے آبی حیات بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔پاکستان کی متعدد جھیلوں اور دریائوں میں پولیتھین بیگزسے تیار کی گئی اشیا ء تیرتی نظر آتی ہیں ،صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں بھی اس کے منفی اثرات پھیل چکے ہیں ۔

ماہر ین ما حولیات کے مطابق چوں کہ یہ ایک نہ سڑنے والی شے ہے ،اس لیے یہ زمین کی ساخت اور زرخیزی کو بری طرح متاثر کر تی ہے ۔نباتات کوزمین سے جو غذا اور اجزاء ملنے چاہئیں ان کی ترسیل میں بھی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں ،جس کے نتیجے میں نباتات کی افزائش رک جاتی اور زمین کی پیداواری صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق پولی تھین بیگز کی وجہ سے بارش کا پانی زمین کے اند جذب نہیں ہو پاتا ،جس سے جنگلات بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں ۔بیشتر علاقوں کے جنگلات اور زرعی زمینیں اپنی ساخت اور پیداواری صلاحیت کھو دیتی ہیں ۔

مشاہدے کے مطابق گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان میںپلاسٹک بیگز کا استعمال تقریبا ً 112 بلین سالانہ تک پہنچ گیا ہے ۔یونیورسٹی آف کولمبیا اور ییل یونیورسٹی کے طالبات نے ماحولیات کے حوالے سے ایک تحقیق کی ،جس کی رپورٹ ورلڈ اکنامک فورم 2012 ء میں پیش کی گئی،تحقیقی رپورٹ میں 130 ممالک شامل تھے ،جن میں پاکستان کا نمبر 120 واں تھا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پولیتھین بیگز میں استعمال ہونے والے رنگ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں ۔اگر لفافوں اور بیگز کو جلایا جائے تو ان کا دھواں ہوا کو زہر آلودہ کردیتا ہے ، آنکھوں ،جلد اور نظام تنفس (سانس لینے کا عمل ) بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے ،اس کے علاوہ سر درد کا موجب بنتا ہے ۔اس کے مضر اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے موثر اقدامات اُٹھانے کی اشد ضرورت ہے اور اگر ہم کرہ ٔ ارض کو ساز گار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں لازمی پولیتھین بیگز کا متبادل تلا ش کرنا ہوگا ، جو پائیدار بھی ہو اور کسی بھی صورت ماحول کے لیے نقصان دہ نہ ہو ۔

ماحول کو صاف ستھرا رکھنا اُس وقت تک ممکن نہیںجب تک عوام کو آلودگی سے با خبر نہ کیا جائے ۔ فی الحال سب سےا ہم قدم یہ ہے کہ پلاسٹک بیگز کی جگہ کپڑے ،کاغذ کے لفافےاور تھیلیوں کے استعمال کو عام کیا جائے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر بھی قوانین بنانے اور ان پر عمل دارآمد کرنے کی ضرورت ہے ۔

پاکستان میں قائم تقریباً8 ہزار یونٹس میں سالانہ 55 ارب پولیتھین بیگز تیار کیے جاتے ہیں ۔حکومت اور ضلعی انتظامیہ اس بات سے بہ خوبی آگاہ ہے کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز ہی ہمارے سیوریج سسٹم کی خرابی کے ذمہ دار ہیں ۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ جلد ازجلد اس کا متبادل پیش کیا جائے اور پولیتھین بیگز استعمال کرنے پر ٹیکس عائد کیاجائے ۔

جب تک ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو کثافتوں سے پاک نہیں رکھیں گے،تب تک ہمارا دم گھٹتا ہی رہے گا ۔اس لیےہر حال میں پولیتھین بیگز کے استعمال کی حوصلہ شکنی کر نی چاہیے ۔ان سے آلودگی کے علاوہ شہر کی خوبصورتی بھی متاثر ہوتی ہے ۔

پہلے لوگ سودا سلف لانے کے لیے کپڑے کے بیگز استعمال کیا کرتے تھے ،جن کا استعمال اب تو شاید ہی کوئی کرتا ہو ،اب تو ہر جگہ پلاسٹک بیگز ہی نظر آتے ہیں، ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس کے مضر اثرات کرۂ ارض کو تباہ کر رہے ہیں ۔

اب یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ پولیتھین بیگز کو استعمال کرنے کے بعد انہیں جمع کر کے آگ لگا دی جاتی ہے ،جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال اربوں پلاسٹک کے تھیلیاں کوڑے کی نذر ہوتی ہیں ۔دوسری جانب ہمارے ملک میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کا استعمال کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے ،جس کا اثر براہ راست ہمارے ماحول پر پڑتا ہے ۔

تحقیق کے مطابق جن پولیتھین بیگز کی موٹائی 15 مائیکرون سے کم ہوتی ہے ،ان کی فروخت اور استعمال پر لازمی پابندی لگادی جائے ،خاص طور پر کالے بیگز پر ،کیوں کہ ان میں دیگر پولیتھین بیگز کی نسبت مضر صحت رنگ 2 سے 3 گنا زیادہ ہوتا ہے ۔ان میں کھانے پینے کی گرم اشیاء کا استعمال بہت زیادہ خطر ناک ہے ۔

ماہرین ماحولیاتی کا کہنا ہے کہ 15 مائیکرون سے کم موٹائی کے بیگز پر پابندی کی وجہ ضائع شدہ پولیتھین بیگز کی ری سائیکلنگ کو فروغ دینا ہے ،کیوں کہ ان بیگز میں ان کے اپنے وزن سے زیادہ گردوغبار ہوتا ہے اس طرح ان کی ری سائیکلنگ مہنگی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہے ۔اسی وجہ سے ری سائیکلنگ سے وابستہ کمپنیاں نہیں خریدتیں ،جس کی وجہ سے یہ گلیوں اور بازاروں میں جمع ہوکر آلودگی کا باعث بنتے ہیں ۔

نیز یہ فصلوں کی جڑوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ،جن کے سبب پیداوار میں کمی ہوتی ہے ۔یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ پولیتھین کے بجائے کپڑے کے تھیلے استعمال کریں ،بہتر ہوگا پولیتھین بیگز کو ہاتھ میں لینے سے پہلے اس کی افادیت اور نقصان کا موازنہ ضرور کریں ۔یہ یاد رکھیں کہ یہ ماحول ویسا ہی ہو گا جیسا ہم اسے بنانا چاہیں گے ،اب فیصلہ آپ کا ہے کہ ماحول کو پلاسٹک کا بنانا ہے یا ۔