پرہیز۔۔۔۔۔!

April 05, 2018

ڈاکٹر شاہد طویل عرصہ بیرون ملک گزار کراب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں بہت شریف النفس اور پاکستان سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔کراچی جانا ہوا تو انہوںنے گاڑی بھجوا کرمجھے اپنے کلینک ہی بلوالیا۔تاکہ وہ کلینک سے چھٹی کرنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ ڈنر کے لیے جاسکیں۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے بس ایک مریض ہے اس کو چیک کرکے چلتے ہیں میں نے کہاکوئی بات نہیں آپ آرام سے اپنا کام کیجئے میں نے لنچ تاخیر سے ہی کیا تھا اس لیے بھوک والا ایشو بھی نہیں ہے اس لیے آپ آرام سے کام کیجئے۔ میں ان کے کمرے میں ایک صوفے پر براجمان ہوگیا۔آنے والا مریض تیس اور چالیس سال کی عمر کا ہوگا۔اس کے ساتھ اس کی اہلیہ بھی تھیں۔ بظاہر تو وہ پڑھا لکھا اور سمجھدار لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں وہ ایک انتہائی بے وقوف اور جاہل شخص تھا ،ہوسکتا ہے میرے یہ سخت فقرے آپ کو ناگوار گزرے ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک بے وقوف شخص تھا۔ کیونکہ گٹکا،چھالیہ اور پان کھا کھا کر اس نے اپنے منہ ،زبان اور دانتوں کا بیڑہ غرق کررکھا تھا۔اس شخص کا رنگ صاف تھا لیکن میرے دوست ڈاکٹر شاہد نے اس کا معائنہ کرتے ہوئے مجھے کہا کہ دیکھیں ان صاحب نے پان چھالیہ اور گٹکا کھا کر اپنے منہ کا کیا حال کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر شاہد نے اس مریض سے پوچھا کہ سگریٹ پیتے ہو اس نے کہا جی جناب اب تو کم کردیئے دن میں صرف ایک ڈبی پیتا ہوں ۔اس شخص کی اہلیہ جو اپنے شوہر کے منہ اور دانتوں کی خراب حالت کی وجہ سے زبردستی ڈاکٹرکے پاس لائی تھی۔اور مریض سے زیادہ اس شخص کی اہلیہ بول رہی تھیں اور اپنے شوہر کی چھالیہ پان گٹکا اور سگریٹ نوشی کی دل کھول کر برائی کررہی تھیں۔ڈاکٹر شاہد نے اس شخص کو اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے اس کو معلوم ہوناچاہیے کہ یہ پان چھالیہ اور گٹکا کی شکل میں زہرکھارہا ہے۔ اور پھر یہ سگریٹ نوشی بھی کرتا ہے۔ اس کو اپنا نہیں تو اپنے بیوی بچوں کا خیال کرناچاہیے۔ بہرحال ڈاکٹرشاہد نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد جہاں اسے یہ تمام چیزوںسے پرہیز کرنے کی ہدایت کی کہ وہ پان چھالیہ اور گٹکا فوری طورپر چھوڑ دے اور یہ دوا استعمال کرے۔ مریض شاید پہلی مرتبہ بولا ’’ڈاکٹر صاحب یہ اتنی ساری گولیاں تو میں نہیں کھاسکتا‘‘۔ مریض نے جواب دیا مجھے دوائی اور گولیوں سے سخت الرجی ہے اور مجھے یہ خوف رہتا ہے کہ دوائی ری ایکشن نہ کردے۔ بس یہ بات سننا تھی کہ ڈاکٹر شاہد کا پارہ چڑھ گیا انہوںنے مریض کو بے نکت سنانا شروع کردیںاور سختی سے کہاکہ میں تمہارا علاج نہیں کرنا چاہتا شہر میں بہت ڈاکٹر ہیں کسی اور سے علاج کروالو۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر میں شرمندہ سا ہونے لگا کہ مجھے اس وقت ڈاکٹر شاہد کے پاس نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ یہ مریضوں کے دیکھنے کا وقت ہے ۔دوسرا مریض کے ساتھ پیش آنے والی اس صورتحال سے ماحول تھوڑا سا تلخ ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر شاہد جودھیمے مزاج کے شخص ہیں لیکن ان کا یہ رویہ بھی وہ بھی مریض کے ساتھ تھوڑا سا عجیب تھا لیکن ڈاکٹر شاہد کی اگلی بات نے مجھے یہ باور کرادیا کہ ڈاکٹر صاحب کا غصہ جائز ہے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ شخص ساری عمر پان چھالیہ اور گٹکا کی شکل میں گندگی پھانکتا رہا ہے اب دوا کھانے کا وقت آیا ہے تواس کو الرجی بھی ہورہی ہے اور دوائی کے ری ایکشن کا بھی خوف ہے، اس کو اس وقت خوف نہیں آیا، نہ اپنی صحت کا خیال آیا، جب یہ اپنی صحت کو خود برباد کرتا رہا ہے۔ اس کی تو آنتوں کا بھی برا حال ہوچکا ہوگا اور یہ دوائی سے الرجی اور ری ایکشن کی بات کرتا ہے مریض بھی شاید یہی چاہتا تھا وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔تھو ڑ ی دیر بعد ڈاکٹر صاحب کا موڈ ٹھیک ہوگیا اور اپنے غصے اوررویے کی مجھ سے معذرت کرنے لگے اور پھر انہوںنے مجھے پرتکلف ڈنر کروایا۔میری اپنی فیملی بھی ڈاکٹرز کاگھرانہ کہلاتی ہے اور مجھے ڈاکٹر مریض کے تعلق کے حوالے سے بہت ساری چیزوں کا علم ہے۔ ہمارے ملک میں ساٹھ فیصد مریض سیلف میڈیکشن کے ’’ماہر‘‘ہیں وہ ایک دوسرے سے سنی سنائی ادویات کا نہ صرف خود بے دریغ استعمال کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تجویز کردیتے ہیں ،جبکہ جہاں ادویات کے ری ایکشن کا بہانہ بناتے وہاں اینٹی بائیوٹک ادویات ٹافیوں کی طرح کھاتے ہیں ذرا سی کھانسی، ذرا سا سردرد، ذرا سا گلا خراب ہائی پوٹینسی کی اینٹی بائیو ٹیک بلا جھجھک کھا جاتے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک کو خاص صورتحال یا حتمی علاج کے طور پر دیتے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں تعلیم کے لئے یوکے گیا تو وہاں میں موسم اور ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے سخت بیمار ہوگیا ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے دوا دینے کے بجائے ریسٹ تجویز کیا اور ویسے بھی وہاں ہمارے ملک کے برعکس کیمسٹ حضرات ڈاکٹر کے مستند نسخے کے بغیر کوئی دوا بھی نہیں دیتے اب اس عمر میں مطالعہ اور ڈاکٹر سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کھانے سے جہاں بیماری کی کچھ فیصد جراثیم مرجاتے ہیں وہاں بچ جانے والے جر ا ثیم اور طاقتور بھی بن جا تے ہیں۔ اس بحث میں آپ کو زیادہ الجھانے کی بجائے یہی کہوں گا کہ ایک توسیلف میڈیکشن سے پرہیز کریں پھر معمولی سی بیماری میں دوائوں کا سہارا نہ لیں لیکن جب کوئی مستند ڈاکٹر آپ کا علاج کرے تو اس کے سامنے اپنی ماہرانہ’’ڈاکٹری‘‘ سے پرہیز کریں۔ویسے بھی ہر معاملے میں پرہیز علاج سے بہتر ہے۔