وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں

April 12, 2018

سردار نذر محمد خان

گزشتہ دنوں مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے 22کے قریب کشمیری شہید اور 100سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات پر پوری وادی کی فضاء سوگوار ہو گئی تھی۔ کشمیری تنظیموں کی طرف سے اس پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا عوام سے یوم سیاہ اور ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی۔ بھارت کی کٹھ پتلی حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود اس دوران جموں و کشمیر کے 13اضلاع مکمل طور پر بند رہے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ متاثرہ علاقوں میں شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ سری نگر سمیت کئی علاقوں میں کرفیو اور دفعہ 144 نافذ کیا گیا تھا اس کے باوجود کشمیریوں نے شدید مظاہرے کیے۔ مقبوضہ کشمیر کی اس تازہ ترین صورتحال پر نہ صرف آزادکشمیر بلکہ پاکستان میں بھی بھرپور احتجاج کیا گیا۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منعقد ہوا ہے تھا اور اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ بھارتی فوج کی جانب سے کیے گئے قتل عام کو عالمی دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے سارے پاکستان، آزاد کشمیر اور جہاں جہاں کشمیری آباد ہیں۔ اس سے قبل وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے وزراء کے ہمراہ آزاد کشمیر مظفرآباد آکر کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ سرحد کے پار کشمیری بہن بھائیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک حمایت جاری رکھی جائے گی اور وہ وقت دور نہیں جب کشمیریوں کا خون رنگ لائے گا۔ احتجاجی ریلیوں کے دوران اقوام متحدہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے ضمیر کو جھنجوڑا گیا اور کہا گیا کہ لاوا بن کر جو احتجاج پھوٹ نکلا ہے یہ جاری رہے گا۔ بھارتی فوج کا ظلم جتنا بڑھے گا کشمیریوں کے حوصلے اتنے ہی جواں ہوں گے احتجاجی ریلیوں کے دوران بھارتی مظالم کے خلاف او آئی سی اور اقوام متحدہ نے بھی شدید مذمت کی ہے۔ آزادکشمیر میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے گزشتہ دو ماہ سے آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ1974ء میں ترامیم کرنے، کشمیر کونسل کے خاتمے اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اور حکومت کو باوقار بااختیار بنانے کے لیے جو جدوجہد تیزی سے شروع کی تھی گزشتہ ایک ہفتے سے اس میں کمی آگئی ہے۔ نادیدہ قوتوں نے حکمران جماعت کے اندر سے اس حوالے سے ریکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ جس میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سرکردہ زعماء اور ممبران اسمبلی جنہوں نے 2006ء سے 2011ء تک آزاد کشمیر میں چار مرتبہ وزراء اعظم کو تبدیل کروایا تھا اور وہ ممبران اسمبلی جو رات گئے سردار عتیق احمد خان کے ساتھ بیٹھ کر وفاداریاں کر رہے تھے دوسرے دن اسمبلی میں جھنڈا لگا کرآئے اور سردار عتیق خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پھر سردار یعقوب خان اور بعد ازاں راجہ فاروق حیدر کے خلاف بھی وہی ممبران اسمبلی پیش پیش تھے۔ جو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کیلئے ہمیشہ اپنا رول ادا کرتے رہے ہیں۔ ان میں بعض ممبران اب پھر اپنی ذاتی مفادات کی خاطر قوم وملک کا نام استعمال کرکے تبدیلی لانے کے لیے میدان عمل میں آئے ہوئے ہیں۔ انتہائی ذمہ دار سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ راجہ فاروق حیدر نے اپنے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لیے پہلے کابینہ کا سائز بڑھانے کا اعلان کیا پھر انہوں نے کشمیر کونسل کے خاتمے کے حوالے سے دستبردار ہونے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے مظفرآباد سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کی تقریب حلف وفاداری سے خطاب کرتے ہوئے واضح اور دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ درپردہ ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے بعض عناصر سرگرم ہیں اور اگر حالات زیادہ خراب ہو گئے تو ایسے اقدام سے بھی گریز نہیں کریں گے جس سے عدم اعتماد کی خواہش رکھنے والے بھی اپنی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے ۔غالباً ان کا اشارہ قانون ساز اسمبلی کو توڑنے کا تھا، انہوں نے کہاکہ وہ کوشش کریں گے کہ اس اقدام کی نوبت نہ آئے لیکن اگر حالات اس مقام پر پہنچ گئے جہاں مفاد پرست ممبران اسمبلی کی خواہشات کو روکنا ضروری ہو گیا تو اس اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ عوام حلقوں کا کہنا ہے کہ راجہ فاروق حیدر نے آزاد کشمیر میں ایک بااختیار باوقار حکومت کے قیام کے لیے جو کوششیں شروع کی ہوئی ہیں اس میں آزاد کشمیر کا عام آدمی ان کے ساتھ کھڑا ہے اور اگر ان کوششو ں کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کی حکومت کو ختم کرنے کی درپردہ کوششیں کی جارہی ہیں اور راجہ فاروق حیدر کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ عبوری آئین ایکٹ74ء میں ترامیم کرنے ،کشمیر کونسل کو ختم کرنے اور آزادکشمیر میں ایک باوقار و بااختیار حکومت کے قیام کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں تو راجہ فاروق حیدر کو دستبردار ہونے کے بجائے اس معاملے پر ڈٹ جانا چاہیے اور جاندار موقف اختیار کرنا چاہیے اس کے باوجود حکومت کے خاتمے کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے کہ تو کل عوام کے سامنے وہ سرخرو ہوں گے اور آنے والے انتخابات میں انہیں عوام بہتر پذیرائی دیں گے ۔