پی آئی اے کی نجکاری

February 08, 2016

گزشتہ کئی ہفتوں سے پی آئی اے کی نجکاری پر ٹی وی چینلز اور اخبارات میں مختلف بیانات اور تبصرے آرہے ہیں۔ مجھے بھی ایک نجی چینل نے پی آئی اے کی نجکاری کے موضوع پر ایک طویل پینل ڈسکشن میں مدعو کیا جس میں میرے علاوہ معروف بزنس مین، پی آئی اے کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ کیپٹن سہیل بلوچ، پی آئی اے پیپلز لیبر یونین کے چیئرمین ہدایت اللہ خان اور دیگر معاشی تجزیہ کار بھی شریک تھے۔ 2گھنٹے طویل پروگرام میں شرکاء نے پی آئی اے کی نجکاری کے نقصانات و فوائد پر گفتگو کی۔ حالیہ دورہ لاہور کے موقع پر پی آئی اے کے اسٹاف نے مجھ سے قومی ایئر لائن کی نجکاری کے حوالے سے اصل حقائق سامنے لانے کی درخواست کی تاکہ قومی نوعیت کے اس اہم فیصلے کیلئے حکومت اور پی آئی اے ملازمین کا موقف پیش کیا جاسکے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (PIA) نے اپنا پہلا غیر ملکی سفر کا آغاز کراچی، لندن، ہیتھرو سے کیا۔ 1959ء کے بعد پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر ایئر مارشل نور خان نے ادارے کی ترقی میں اہم کردار کیا اور پی آئی اے کا شمار دنیا کی معروف ایئر لائنز میں ہونے لگا۔ قومی ایئر لائن جس کا سلوگن ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ ہے، نے دنیا کی کئی معروف ایئر لائنز کے شروع کرنے میں اہم کردار کیا۔ مجھے یاد ہے کہ دنیا کی معروف ایئر لائن ایمریٹس کی دبئی سے کراچی کی پہلی افتتاحی فلائٹ کو پی آئی اے کے ممتاز کیپٹن اعجاز الحق چلارہے تھے جبکہ ایمریٹس کی غیر ملکی ایئر ہوسٹس کو کراچی میں پی آئی اے ٹریننگ سینٹر میں تربیت دی گئی تھی۔ اسی طرح معروف ایئر لائن سنگاپور ایئرلائن کو شروع کرنے کا سہرا بھی پی آئی اے کے سر جاتا ہے لیکن گزشتہ 25سالوں کے دوران مختلف دور حکومت میں پی آئی اے میں اعلیٰ سطح پر نااہل و ناتجربہ کار لوگوں کی تعیناتی، سیاسی بنیادوں پر غیر ضروری بھرتیاں، کرپشن، اقرباء پروری، ملازمین کی ہڑتالوں اور مالی بدانتظامیوں کے باعث آج پی آئی اے ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ پی آئی اے کو اب تک 230 ارب روپے کا خسارہ ہوچکا ہے جبکہ قومی ایئر لائن پر بینکوں کے 320ارب روپے سے زائد قرضے ہوچکے ہیں جس پر ادارے کو 3ارب روپے ماہانہ یعنی تقریباً 36 ارب روپے سالانہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ پی آئی اے میں تقریباً 17ہزار ملازمین ہیں جبکہ ایئرلائن کے پاس صرف 38 طیارے ہیں جن میں سے 10 طیارے اسپیئر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے گرائونڈ کردیئے گئے ہیں۔ اس طرح پی آئی اے میں طیاروں اور ملازمین کا فی کس تناسب دنیا کی دیگر ایئرلائنز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جسے یہ ادارہ اپنی محدود آمدنی میں برداشت نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال پی آئی اے کو تقریباً 30 ارب روپے کا مالی خسارہ ہوا۔ یاد رہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں 120 ڈالر فی بیرل سے 30ڈالر فی بیرل ریکارڈ کمی کی وجہ سے پی آئی اے کو اس وقت نہایت کم قیمت پر ایندھن سپلائی کیا جارہا ہے لیکن پی آئی اے نے اپنے کرایوں میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں کی، اس کے باوجود پی آئی اے کا خسارے میں چلنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مباحثے کے دوران پیپلز لیبر یونین کے چیئرمین ہدایت اللہ خان نے بتایا کہ پی آئی اے کی اندرون ملک فلائٹس غیر منافع بخش روٹس پر چلانے، غیر مطلوبہ جگہوں پر پی آئی اے کے سیلز دفاتر قائم کرنے، اسپیئر پارٹس کی عدم دستیابی اور طیاروں کی تعداد میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے پی آئی اے کو مالی نقصانات ہورہے ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین سہیل بلوچ کی اپیل پر ملازمین نے گزشتہ ہفتے سے ہڑتال جاری رکھی ہوئی ہے حالانکہ حکومت نے ہڑتال کی اپیل سے ایک دن قبل لازمی خدمات ایکٹ کے تحت پی آئی اے یونین پر پابندی عائد کردی تھی لیکن اس کے باوجود ہڑتالیں جاری ہیں جس سے قومی ایئر لائن کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ اس دوران قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ سہیل بلوچ پی آئی اے پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں جنہوں نے پی پی دور حکومت میں ہڑتالوں کے ذریعے پی آئی اے کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن اعجاز ہارون کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ کیپٹن سہیل بلوچ اور کیپٹن اعجاز ہارون میرے قریبی دوست ہونے کی وجہ سے گیلانی دور حکومت میں مجھ سے درخواست کی گئی کہ میں پی آئی اے انتظامیہ اور پالپا کے درمیان تنازعات ختم کرانے میں کردار ادا کروں۔ اس مقصد کیلئے میں نے پالپا عہدیداران اور پی آئی اے انتظامیہ کے ساتھ اپنے گھر میں ایک میٹنگ رکھی جس میں پالپا عہدیداروں کے علاوہ پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے کیپٹن اعجاز ہارون کے ساتھ کیپٹن شجاع اور ڈائریکٹر ایڈمن حنیف پٹھان بھی شریک تھے۔ رمضان میں ہونے والی یہ میٹنگ سحری تک جاری رہی جس میں بالآخر پالپا اور پی آئی اے انتظامیہ کے مابین متنازع امور پر اتفاق رائے ہوگیا تھا اور صبح پی آئی اے ہیڈ آفس میں اس معاہدے پر دستخط ہونے تھے لیکن بعد میں یہ اطلاع ملی کہ دونوں فریقین میں تکرار کے باعث معاہدے پر دستخط نہ ہوسکے اور احتجاج کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن اعجاز ہارون کو بالآخر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا ،اس دوران پی آئی اے کو مزید مالی خسارے اور مسافروں کو پریشانیوں و تکلیف سے دوچار ہونا پڑا۔
پی آئی اے کو چلانے کیلئے حکومت ہر سال عوام کے ٹیکس سے تقریباً 400 کروڑ روپے کی ادائیگی کرتی ہے جس کے پیش نظر حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کیلئے ادارے کو دو کمپنیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ 18 ماہ میں ادارے کے اہم تجارتی معاملات عالمی غیر ملکی کمپنیوں کو دے دیئے جائینگے۔ وزیر نجکاری محمد زبیر نے پی آئی اے کے 26% حصص فروخت کرنے کے عمل کو مشکل مرحلہ قرار دیا ہے۔ نجکاری کے عمل میں میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ پی آئی اے کے ملازمین کے روزگار کا تحفظ ہے کیونکہ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ نجکاری کے معاہدے میں ادارے کے ملازمین کے روزگار کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ میں نے ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ سیاسی بنیادوں پر قرضے دینے اور اضافی ملازمین کو بھرتی کرنے کی وجہ سے یو بی ایل، ایم سی بی، الائیڈ بینک اور حبیب بینک جیسے اداروں کو بھی مالی خسارے کا سامنا تھا۔ ان بینکوں کو چلانے کیلئے حکومت ہر سال عوام کے ٹیکسوں سے اربوں روپے ادا کرتی تھی لیکن جب انکی نجکاری کی گئی تو نجکاری معاہدے میں ملازمین کے روزگار کا تحفظ یقینی بنایا گیا اور آج یہی ادارے پروفیشنل مینجمنٹ کی بدولت نہایت منافع بخش بن چکے ہیں جو حکومت کو سالانہ اربوں روپے ٹیکس کی ادائیگی بھی کررہے ہیں۔
حال ہی میں کراچی میں وزیر نجکاری محمد زبیر کے بیٹے کے ولیمے میں میری ملاقات ایم سی بی کے چیئرمین محمد منشاء سے ہوئی۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ایم سی بی بینک کی نجکاری کے بعد انہوں نے نئی پروفیشنل مینجمنٹ کو ادارے کے انتظامی امور آزادانہ طور پر چلانے کیلئے سونپے جنہوں نے گولڈن ہینڈ شیک اور رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم کے ذریعے غیر ضروری اضافی ملازمین کو پرکشش مالی مراعات دے کر ادارے سے فارغ کیا لیکن ادارے کے منافع بخش ہونے کے بعد بینک کو توسیع دینے کیلئے فارغ کئے گئے ملازمین سے کئی گنا زیادہ نئے باصلاحیت ملازمین رکھے گئے جو بینک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور آج ایم سی بی بینک تقریباً 40 ارب روپے سالانہ ریکارڈ منافع کمارہا ہے۔ اسی طرح کے ای ایس سی کی نئی پروفیشنل مینجمنٹ نے رضاکارانہ اور گولڈن ہینڈ شیک ریٹائرمنٹ اسکیم کے ذریعے تقریباً 5 ہزار غیر ضروری اضافی ملازمین جو سیاسی بنیاد پر بھرتی کئے گئے تھے، کو فارغ کرکے ادارے کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ ان مثالوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں بلکہ ملک میں امن و امان اور سرمایہ کاری کیلئے سازگار پالیسیاں بنانا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب ادارے قومیائے جارہے تھے لیکن اب پوری دنیا میں نجکاری کامیاب ماڈل ہے کیونکہ نجکاری کے بعد پروفیشنل انتظامیہ اور نئی سرمایہ کاری کی بدولت ادارے مضبوط ہوتے ہیں جس کا فائدہ ان اداروں کے ملازمین کو بھی پہنچتا ہے۔ میں نے اپنے متعدد کالموں میں پبلک سیکٹر کے خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے، واپڈا جنہیں چلانے کیلئے حکومت ہر سال تقریباً 500 ارب روپے غریب عوام کے ٹیکسوں سے ادا کرتی ہے، کے ملازمین کے روزگار کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ان کی نجکاری پر زور دیا ہے تاکہ شفاف انتظامی اصلاحات، اضافی مالی وسائل اور پروفیشنل مینجمنٹ کے ذریعے ان اداروں کو منافع بخش بنایا جاسکے۔