شام میں مفادات کی جنگ

April 18, 2018

شام کے دارالحکومت،د مشق سے کچھ دور واقع نواحی علاقے دوما میں ایک تحقیقی مرکز پر چند روز قبل امریکا، بر طا نیہ اور فرانس نےمیزائلوں اور لڑاکا طیاروں سے اچانک حملہ کردیا۔ روسی ذرایع کے مطابق اتحادی فوجوں نے ا س مرکز پر ایک سو تین میزائل داغے جن میں سے اکثر کو شام کی فوج نے نشانہ بنایا۔ اتحادیوں کا دعویٰ ہے کہ دوما کے ریسرچ سینٹر سے باغی فوجیوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا، جس کی تصاویر انہوں نے وائرل کی ہیں۔

تاہم شام، روس اور ایران نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ روس نے امریکا کو بہ راہ راست پیغام دیا ہے کہ اس حملے کا موثر جواب دیا جائے گا۔ روسی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دوما کے ر یسرچ سینٹر میں کیمیائی گیس ایک برطانوی کمپنی نے پھیلا ئی ہے اور اس کیمیائی حملے میں وہ برطانوی ایجنٹ بھی ہلا ک ہوگیا ہے۔

اس حملے کے حوالے سے امریکامیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدر ٹرمپ کوہٹلر کے خطاب سے نوازا ہے ۔انہوں نے ٹرمپ سے کہا ہے کہ نہتے افراد پر کر و ز میز ا ئل داغنا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔ امریکی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ اب شا م بہت عرصے تک کسی قسم کا کیمیائی ہتھیار تیار نہیں کر سکے گا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی صفائی میں دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ با غیوں کے زیر قبضہ علاقے میں بلالحاظِ عام شہری یا جنگ جو، کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جارہا ہے،اس لیے ا نہو ں نے میزائل داغنے کا حکم دیا تھا۔

ادہربرطانوی وزیر ا عظم نےاپنے بیان میں کہاکہ ہم نے دہشت اور وحشت کی خوف ناک صورت حال کا مقا بلہ کیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ فرانس نے ایک حد مقرر کردی تھی، جب شام نے و ہ حد پار کرلی توہم نے حملہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ میں برطانیہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے بر و قت مدد کی اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا، برطانوی فوجیوں کی کارکردگی عمدہ رہی۔

امریکا،برطانیہ اور فرانس کے حزب اختلاف کے حلقوں نے تینوں ممالک کے شام پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ برطانوی حزب اختلاف کے رہنما جیر می کوہن نے کہا کہ شام پر حملے کاکوئی جواز نہیں تھا۔ کیمیائی ہتھیا ر و ں کی کہانی بہت پرانی ہوچکی ہے۔برطانیہ کے عوامی حلقو ں نے بھی کیمیائی ہتھیاروںکے حملے کو جواز بنانے پر تینو ں ممالک کی مذمت کی ہے۔یادرہے کہ پندرہ برس قبل سابق امریکی صدر جارج بش جونیئر اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نےیہ واویلا مچاکر کہ عراق کے صدر صدام حسین جوہری اور کیمیائی ہتھیار تیار کررہے ہیں عراق پر بے رحمانہ حملے کا جواز پیدا کیا تھا جس پر بعدازاں ٹونی بلیئر کوہائوس آف کامن میں اپنے جھوٹ پر معافی مانگنی پڑ ی تھی۔

اب ایک بارپھر ایسا ہی کھیل مغربی طاقتیں اور ا سر ا ئیل شام کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔ مگر اب پندرہ برس پہلے والے حالات نہیں ہیں اور شام اکیلا نہیں ہے۔ شام کے ساتھ روس، ایران،بشار الاسد کے حامی جنگ جو دھڑ وں کے علاوہ ترکی بھی کھڑا ہے۔

دوما ریسرچ سینٹر میں برطانوی ایجنٹ کی حملے کی سا ز ش سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اچانک حملے کا اشارہ بر طانیہ کی طرف سے ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے روسی سفارت کاروں کو برطانیہ سے نکالنے کا سلسلہ شروع کیاتھا۔

اس کے لیے یہ جوازدیا گیا تھا کہ روس نے اپنے سابق منحرف جاسوس پر برطانیہ میں کیمیائی ایجنٹ سے حملہ کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مقتول روسی جاسوس بھی کیمیائی ہتھیاروں کا ماہر تھا۔ برطانیہ کے بعد امریکا، فرانس، جرمنی سمیت کئی ممالک نے روسی سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکال دیا تھا۔

آزاد ذرائع یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ سعودی عر ب کے ولی عہد شہزادہ سلمان کے امریکا کے طویل د و ر ےکے فورا بعدامریکا، فرانس، برطانیہ، اسپین وغیرہ کا شا م پر حملہ محض اتفاق ہے یا کسی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ کیا جارہا ہے کہ کچھ ہی دنوں قبل شام کے مسئلے پر روس، ترکی اور ایران کے سر بر ا ہو ں کی بہت اہم کانفرنس انقرہ میں ہوئی تھی جس میں تینوں ملکوں نے شام کی تعمیرنو کی بھی منصوبہ بندی کی تھی اور ترکی نے صدر بشارالاسد کی برطرفی کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔یہ و ا قعات بہ ظاہر اتفاقات لگتے ہیں، مگر سیاست کی بسا ط پر کو ئی چال محض اتفاق نہیں ہوتی۔ شام کے کبھی بگڑتے اور کبھی سلجھتے ہوئے نظر آنے والے حالات میںحقیقتا یہ ملک مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے۔

شامی حکومت کی ملک کے صرف تقریباً پینتالیس فی صد حصے پر کنٹرول ہے۔ شامی کرووں کے پاس (جو شمال مشرق میںہیں) تقریباً تیس فی صد علاقہ ہے۔ حکومت مخالف اور شدت پسندوں کے پاس پندرہ فی صد سے زاید علاقہ ہے۔باقی علاقوں میں د ا عش، القاعدہ اور دیگر جنگ جو قابض ہیں۔

دوسری جانب روس کے صد رپوٹن نے فرانس کومتنبہ کیا ہے کہ وہ بلاسوچے، سمجھے بیانات نہ دے اور شام کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ روس نے صدرٹرمپ سے کہا ہے کہ وہ اس حملے کا موثر جواب دے گا۔پوٹن نے برطانوی وزیر اعظم کو کھلے انداز سے چیلنج کیا ہےکہ ان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ برطانیہ نے دوما میں کیمیائی ہتھیا روں کا ڈرامہ رچایا ہے اور اس کا بھی جواب دیا جائے گا۔

اس حملے کے بعدروس نے فوری طور پر شام میں مزید ا یس ۔300 میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے کاکام شروع کردیا ہے۔ روس کی وزارت دفاع کے تر جمان نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا،برطانیہ اور فر ا نس کے مشترکہ حملے کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ ممالک شام میں عدم استحکام اور انتشار کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

ایران نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل خطے میں بدامنی اور بگاڑ چاہتا ہے۔ حزب اللہ کے رہنماحسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیل نے یہ تا ر یخی غلطی کی ہے کہ امریکی اشارے پر شام پرمیزائل داغے۔ اس حملے میں سات ایرانی ہلاک ہوئے ہیں اور حزب اللہ اس کا جواب دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب اس تمام صورت حال پر آ نکھ لگائے بیٹھا ہے۔ اسرائیل ہمیں یروشلم تک پہنچنے سے روکنا چاہتا۔یہ سب کچھ کس قیمت پرہوگا،اسرائیل کو یہ سو چنا پڑے گا۔

اس صورت حال میں روس نے فوری طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی جس پر فوری ا جلا س طلب کرلیا گیا۔اجلاس میںروسی قرارداد کے حق میں تین اور مخالفت میں سات ووٹ ڈالے گئے۔پانچ ا ر ا کین غیرجانب دار رہے۔تاہم اقوام متحدہ نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور حملے کے بارے میں تفتیشی ٹیم روانہ کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے مگر شامی حکومت کی طرف سے اشارہ ملنے کا انتظار ہے۔

مشرق وسطٰی کی معروف میڈیا ہاوس الجزیرہ نے بتایا ہے کہ روس، ترکی اور ایران کی چند ماہ قبل آستانہ میں ہو نے والی کانفرنس اور پھر حال ہی میں ان تینوں ممالک کے سربراہوں کی انقرہ میں منعقدہ کانفرنس میں یہ طے پایا تھا کہ شام میں جاری جنگی سرگرمیوں کا خاتمہ کیا جائے اور مذاکرات کاعمل آگے بڑھایا جائے۔ تاہم صدر بشا ر ا لا سد کے مستقبل کا فیصلہ امن کے قیام کے بعد کیا جائے۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی ممالک اس موقف سےاتفاق نہیں کرتے۔ امریکا بار بار جنگ کی دھمکی دیتا رہا ہے اور دوسری جانب امریکی صدر نے شام سے دو ہز ا ر فوجی واپس بلانے کی بات کی تھی۔ ایسے میں یورپی اور امریکی آزاد ذرائع یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ شام میں اس طویل جنگ، دہشت اور بربادی سے کس کو فائدہ ہورہا ہے۔

صدرٹرمپ نے فوجی واپس بلانے کی بات کرتے کرتے اچانک یوٹرن لیا اور اب جنگ کی بات کررہے ہیں۔پھر اچانک برطانیہ اور فرانس نے امریکا کے ساتھ مل کرشام پر کیمیائی ہتھیاراستعمال کرنے کا بہانہ بناکر سو سے زائدمیزائل داغے جن میں سے نصف سے زاید میزائلوں کو روسی ڈیفنس سسٹم نے فضاہی میں تباہ کردیا۔ یہاں پھر وہی سوال سر اٹھاتا ہے کہ اچانک یہ وبال کیوں؟ جب کہ مغربی خفیہ ذرائع جانتے ہیں کہ شام پر روس کی چھتری ہے۔ شام کے اہم فوجی اثاثے اور اہم ہتھیار شام میں روسی فوجی اڈوں میں محفوظ ہیں۔ امریکی یا ا سر ا ئیلی میزائل صرف عمارتوں، سڑکوں اور معمولی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔

اس تناظر میں جہاں تک صدربشار الاسد کو اقتدار سے الگ کرنے کا معاملہ ہے تو وہ سات سال کی طویل اور خوں ریز جنگ سے بھی طے نہیں ہوا۔ صدر اسد تاحال اقتدار پر اپنی گرفت رکھتے ہیں۔ درحقیقت مغرب کو یہ احساس ستا رہا ہے کہ مشرق وسطٰی اس کے ہاتھ سے نکلا جا ر ہا ہے۔چند ماہ میں روس، ترکی اور ایران کے رہنمائوں نے پہلی کانفرنس آستانہ میں اوردوسری انقرہ میں منعقد کی جس کے تحت تینوں ممالک مشترکہ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔اس میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ شام کو ہتھیاروں سے پاک کردیا جائے یا انہیں محدود تر کیا جائے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے اور تمام اہم فریقوں سے بات چیت کی جائے تاکہ امن مستحکم ہو۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ صدر بشار الاسد کا مستقبل کیا ہو؟ اسے شام میں امن منصوبے پر عمل درآمد کے بعد طے کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس نکتے پر طیب اردون کے کچھ تحفظات تھے، مگر پوٹن اورحسن روحانی نے انہیں مطمئن کردیا کہ اس کا بھی مناسب حل تلاش کرلیا جائے گا، فی الحال شام میں امن قائم کرنا اور اس کی تعمیرنوبہت بڑے مسائل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ پھر جنگ کا واویلا کررہے ہیں۔ ایک جانب برطانیہ اور فرانس ہیں جو دو صدیوں تک مشرق وسطی کے آقا رہے اور موجودہ مشرق و سطی کے نقشے کے بانی بھی ہیںاور دوسری جانب ا سر ا ئیل ہے جومشرق وسطی روس، ترکی اور ایران کے اثرات قبول کرنے کوتیارنہیں ہیں۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر جنگ کا را ستہ باقی رہ جاتاہے جس میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔