جنسی طور پر ہراساں کرنے کیخلاف سوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ مہم

April 19, 2018

جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم ’می ٹو‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔

جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف خواتین کی مہم ’می ٹو‘ کا آغاز اکتوبر دو ہزار سترہ میں ہوا تھا، جب ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف تقریباً اٹھارہ اداکاراؤں اور خواتین نے ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا،پانچ اداکاراؤں نے ان پر زیادتی کا الزام بھی عائد کیا۔

ہاروی وائنسٹن کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں میں انجلینا جولی، ایشلے جڈ، سلمیٰ ہائیک جیسے بڑے نام بھی شامل تھے، اسی حوالے سے امریکی اداکارہ ایلسا میلانو نے ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ایک ٹرینڈ کا آغاز کیا جس کے بعد جیسے سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔

ہاروی کے ٘خلاف الزامات سامنے آنے پر پہلے برٹش فلم اکیڈمی نے ان کی رکنیت ختم کی، پھر آسکر دینے والے ادارے نے بھی انہیں باہر کا راستہ دکھادیا اور پولیس کی جانب سے انکوائری کا سامنا الگ بھگتنا پڑا۔

ہالی ووڈ سے ہوتا ہوا یہ معاملہ بالی ووڈ بھی جا پہنچا، ایشوریہ رائے کی منیجر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے معروف ہیروئین کو جنسی ہراسانی کے حملے سے بچایا تھا، ہاروی نے ایشوریہ سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا۔

’می ٹو‘ مہم میں پاکستانی خواتین نے بھی اپنا حصہ ڈالا،قصور میں سات برس کی ننھی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے دلخراش واقعے کے بعد نادیہ جمیل،فریحہ الطاف اور ماہین خان نے اپنی زندگی کے تلخ تجربات ’می ٹو‘ مہم کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھے۔

امریکی جریدے ’ ٹائم میگزین‘ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ٹرینڈ کا آغاز کرنے والے افراد کو سال کے با اثر لوگوں میں شامل کر لیا۔