علامہ اقبالؒ کے کلام میں ہر دور کے انسان کے لئے فکری رہنمائی موجود ہے

April 21, 2018

ڈاکٹر خالد مبین

اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی۔ وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی۔ وہ خودی کا پیامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی۔ وہ تہذہب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور توقیر آدم کا مبلغ بھی۔ وہ ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کا شاعر بھی ہے۔ اس لیے اس کے کلام میں ہر دور کے انسان کے لیے فکری راہنمائی موجود ہے۔

افکار و خیالاتِ اقبال کی گوناں گونی اور گیرائی کی وجہ سے دنیا کی بہت سی اقوام نے اقبال کے فکر و کلام کو پذیرائی بخشی ہے۔ اس وقت کلام اقبال کے تقریباً 60سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ہر قوم میں اقبال کی مقبولیت کی مختلف وجوہ موجود ہیں۔ سردست ترکی میں اقبال کی مقبولیت کی چند وجوہ کا جائزہ لیتے ہیں۔

اقبال کی فکر اور شاعری کا مدار حریت پر ہے اس لیے انھیں ہمیشہ آزاد ترک قوم سے عقیدت کی حد تک محبت رہی ہے۔ چنانچہ جہاں کہیں ان کے کلام میں ترکوں یا ترکیہ کا ذکر آتا ہے اس کے ساتھ حر، محتشم، رعنا اور محنت کوش جیسی صفات بھی نظر آتی ہیں۔

اقبال نے مشرق و مغرب کے علم و حکمت سے استفادہ کیا تھا۔ دین، تاریخ اور فلسفہ نے انھیں بصیرت عطا کی تھی لہٰذا وہ مسلمانوں کے سیاسی و فکری مسائل بخوبی سمجھتے تھے اور ان پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ خصوصاً عالم اسلام اور ترکیہ کی سیاسی جدوجہد آزادی ان سے پوشیدہ نہ تھی:

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوزوساز

1912ء میں اٹلی نے سلطنت عثمانیہ کے ایک صوبے طرابلس پر حملہ کر دیا (یہ علاقہ اب لیبیا میں شامل ہے )۔ 1913ء کی جنگ بلقان دراصل عثمانی سلطنت کے مقبوضہ یورپی علاقوں کی خاطر بلقان جزیرہ نما ملکوں کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں ترکوں کی ہزیمت نے اقبال جیسے حساس شاعر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ان جنگوں کے المناک واقعات سے متاثر ہو کر اقبال کے قلم سے وہ لافانی شعر ٹپکے جنھیں سن کر ترک ہی کیا، سارے عالم اسلام کی آنکھیں نم آلود ہو گئی تھیں۔ اقبال اپنی نظم ’’حضورِ رسالت مآب میں‘‘ حضرت محمدﷺ کے استفسار پر کہ دنیا سے میرے لیے کیا لائے ہو، ان کے حضور طرابلس کے شہیدوں کا لہو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’حضور آپؐ کی خدمت میں ایسا آبگینہ لایا ہوں جو گرانقدر ہے ۔ یہ نایاب شے طرابلس کے شہیدوں کا لہو ہے جس سے آپؐ کی اور آپؐ کی امت کی آبرو اورتوقیرجھلکتی ہے ‘‘ ۔

غم و الم کی تاریک فضا میں اقبال نے’’شکوہ‘‘ ’’جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’شمع اور شاعر‘‘جیسی کئی یادگار نظمیں لکھیں جن میں اپنے ترک بھائیوں کے احساسات و جذبات کی خوب خوب عکاسی کی۔ وہ ان تمام مصائب واقعات پر اشکبار ہی نہ تھے بلکہ امید کے پیامبر کی حیثیت سے انھوں نے ملت اسلامیہ کو روشن مستقبل کا مژدہ بھی سنایا۔ اقبال نے ایک نظم ’’محاصرئہ ادرنہ‘‘ ترک فوجوں کے اعلیٰ کردار کی تعریف اور تحسین میں لکھی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکیہ نے اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں جرمنی کی شکست کے ساتھ ہی ترکیہ کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اتحادی فوجیں استنبول میں داخل ہو کر ترکیہ کے حصے بخرے کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔

ترکیہ اس مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح غلامی کا طوق اس کی گردن میں بھی رکھا جانے والا تھا۔ ترکیہ کا سلطان معاہدہ سیورے کے بعد محض کٹھ پتلی بن کر رہ گیا تھا اور ترکیہ کو ’’یورپ کا مرد بیمار‘‘ کہا جا رہا تھا۔ اقبال نے اسی صورت حال کو ’’پیام مشرق‘‘ میں یوں بیان کیا ہے:

آلِ عثمان در شکنجِ روزگار

مشرق و مغرب ز خوُنش لالہ زار

اسی زمانے میں برصغیر میں دولت عثمانیہ کی سلامتی، ادارہ خلافت کی بحالی اور ترکوں کی آزادی کے حق میں ایک بھرپور تحریک چلائی گئی جو تحریک خلافت کے نام سے معروف ہے۔ اقبال بعض وجوہ کی بنا پر اس تحریک کے حق میں نہ تھے۔ ان کے نزدیک تحریک نے حصولِ مقصد کے لیے مناسب راہ اختیار نہیں کی تھی۔

ان کے مطابق تحریک میں حکومت برطانیہ کو ترکی کے بارے میں اپنے مذموم مقاصد سے دستبردار کرنے کے لیے مطلوبہ قوت نہ تھی نیز تحریک کے انداز فکر و عمل سے تصورِ غلامی اور دریوزہ گری کا انداز مترشح ہوتا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اسی حوالے سے لکھتے ہیں:

’’اقبال کے الفاظ میں تحریک خلافت کیا تھی۔ اہل مغرب سے خلافت کی بھیک مانگی جا رہی تھی۔ ان کے نزدیک ایسی خلافت مسلمانوں کے زور بازو کا نتیجہ نہ ہو، بے معنی و مہمل ہے۔‘‘

جب مصطفیٰ کمال پاشا نے 1923ء میں خلافت کو ختم کر کے جمہوریت کا اعلان کیا تو اقبال نے اتاترک کے اس طریقے کو خلافت کے سلسلے میں اجتہادی عمل قرار دیا اور کہا کہ مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کو امت مسلمہ کو واپس دلوا دیا۔

گویا خلافت جو شوریٰ کا حق ہے اس کو لوٹا دیا کیونکہ علامہ اقبال کے نزدیک ترک خلافت، ملوکیت کی ہی ایک شکل تھی اور اتاترک نے اسے ختم کر کے گویا اسے حقیقی خلافت یعنی شوریٰ کا حق مسلمانوں کو لوٹا دیا ہے۔ ترکوں کی اس ذہنی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا:

’’یہ ترک ہیں جو امم اسلامیہ میں قدامت پرستی کے خواب سے بیدار ہو کر شعور ذات کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہوں نے ذہنی آزادی طلب کی ہے اور جو خیالی دنیا سے نکل کر اب عالم حقیقت میں آ گئے ہیں۔‘‘

اقبال کی نظم ’’طلوع اسلام‘‘ تمام وکمال ترکوں اور ان کے عظیم رہنما مصطفیٰ کمال پاشا کی تاریخی جدوجہد سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ اس نظم کا تاثر پُرامید اور والہانہ ہے۔ اس میں افسردگی یا زوال کا نوحہ نہیں بلکہ ایک نئے دور کے آغاز کی نوید ہے۔ اس نئے دور کا آغاز ترکوں کے ہاں یونانیوں کو شکست دے کر سمرنا آزاد کرانے سے ہوا۔

اسی حوالے سے فرمان فتح پوری رقم طراز ہیں کہ 1922ء میں جب مصطفیٰ کمال پاشا نے ترکیہ کو انگریزوں کے پنجے سے بزور شمشیر آزاد کرا لیا اور برطانوی افواج کو قسطنطنیہ سے نکلنا پڑا تو اقبال کے قومی جذبات میں وفور مسرت سے طوفان آگیا اور اس کے نتیجے میں ان کی وہ طویل اور مشہور نظم وجود میں آئی جو ’’طلوع اسلام‘‘ کے نام سے بانگ درا میں شامل ہے، نظم کیا ہے، انگریزوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی فتح و کامرانی کا جشن ِ منظوم ہے۔

دلیلِ صبح روشن ہے ستاروں کی تُنک تابی

افق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِگراں خوابی!

15دسمبر1918ء کو لاہور میں سر مائیکل اوڈائر کی صدارت میں منعقد ہونے والے جلسہ فتح میں اقبال کو بھی شریک ہونا پڑا۔ اس حوالے سے ایک دوست کے نام خط میں اقبال نے لکھا کہ میں پولیٹیکل جلسوں میں کبھی شریک نہیں ہوا کرتا۔ اس جلسے میں اس واسطے شریک ہوا کہ اس میں ایک بہت بڑا مذہبی مسئلہ زیر بحث تھا۔ اقبال نے 30 دسمبر 1919ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے ایک جلسہ عام میں (جس کی صدارت میاں فضل حسین نے کی) نمایاں حصہ لیا اور یہ قرارداد پیش کی۔

’’مسلمانان لاہور اس جلسے میں اس عظیم پریشانی اور بے چینی کا اظہار کرتے ہیں جو پیرس کی صلح کانفرنس میں اب تک سلطنت عثمانیہ اور خلیفتہ المسلمین کے متعلق قابل اطمینان فیصلہ نہ ہونے سے لاحق ہوئی ہے اور حکومت کو وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو مسٹر لائیڈ جارج، وزیراعظم برطانیہ نے جنوری 1918ء میں تمام اسلامی دنیا سے سلطنت ترکیہ کے متعلق کیے تھے۔

اقبال نے اس قرارداد کے حق میں پُرجوش تقریر بھی کی۔ قصہ مختصر اقبال کی شعری تخلیقات، اُن کے خطوط، اُن کے مقالے اور ان کی تقاریر میں جہاں بھی ترکوں یاسلطنت عثمانیہ کا ذکر ہے، وہاں بحیثیت مسلمان، سلطنت عثمانیہ اور ترکوں کے لیے ان کے دل میں موجود ہمدردانہ جذبات کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔

اقبال نے اپنی شاعری اور نثر میں کئی معروف ترک شخصیات مثلاً سلیمانِ اعظم، سلطان محمد فاتح، سلطان مراد، سلطان عبدالمجید، سلطان عبدالعزیز، سلطان عبدالحمید کے علاوہ ترک دانشور مولانا جلال الدین رومی، سید حلیم پاشا، ضیاء گوک آلپ اور کمال اتاترک کا ذکر کیا ہے۔

ترک برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں سے شدید محبت کرتے ہیں۔ اس محبت کے پیچھے برصغیر کے مسلمانوں کی ترکوں کی ملی جدوجہد کے زمانے میں خلافت تحریک کے ذریعے کی جانے والی مالی، اخلاقی و سیاسی مدد کے علاوہ علامہ اقبال کی ذات اور ان کی فکر بھی ہے جو پاک ترک دوستی کے سلسلے کی ایک زریں کڑی ہے۔ اقبال کی ترکوں سے محبت اپنی جگہ اہم سہی مگر جواب آں محبت کے جواب میں ترکوں نے بھی اقبال سے اپنی محبت اور لگائو کا اظہار کئی ایک اقدامات اُٹھا کر کیا ہے۔ ترک دانشوروں اور ادیبوں نے کلام و افکار اقبال کا مطالعہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔ اقبال کی تقریباً تمام کتب ترکی زبان میں احسن طریقے سے منتقل کی جا چکی ہیں۔

خصوصاً انقرہ، استنبول اور قونیہ سے وابستہ اساتذہ نے اس کام کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔ دوسرے ان یونیورسٹیز میں ہر سال ’’یوم اقبال‘‘ کا جشن منانے کی راویت بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوق ار، ڈاکٹر جلال سوئیدان اور ڈاکٹر یاسمین بیلن اوزجان اور ڈاکٹر احمد البائراق وغیرہ کے علاوہ ترک اقبال شناسوں کی ایک طویل فہرست ہے جو تاحال فکراقبال کی ترویج سے منسلک ہیں۔