بلوچستان :دہشت گردی کا نیا رخ

April 26, 2018

بلوچستان میں کوئٹہ اور مستونگ کے دو مقامات پر ایک گھنٹے میں دو خود کش حملوں کے دوران دس سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت اور14کا زخمی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دہشت گردوں نے عوامی مقامات اور سول اداروں کے بعد اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات اور اہلکاروں کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے جو ریاست سے ٹکرائو کے حوالے سے عسکریت پسندی کا ایک انتہائی خطرناک رخ ہے اور حکومت کو اس کی بیخ کنی کے لئے اپنی حکمت عملی میں موثر تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ اطلاعات کے مطابق منگل کو کوئٹہ میں ایئرپورٹ روڈ پر صدر آزاد کشمیر کی آمد کے سلسلے میں سیکورٹی ڈیوٹی دینے کے بعد بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ایک ٹرک میں واپس جا رہے تھے کہ ایک خود کش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل ٹرک سے ٹکرا دی جس سے زور دار دھماکہ ہوا اورسات اہلکار شہید اور5زخمی ہو گئے۔ خود حملہ آور کے جسم کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ مستونگ کے علاقے دشت میں ہوا جہاں دو خود کش حملہ آوروں نے ایف سی کے کیمپ میں گھسنے کے لئے ریلوے پھاٹک پر واقع چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔ دو طرفہ فائرنگ میں3اہلکار شہید اور 6زخمی ہوئے جبکہ حملوں آورں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ حملے کی ذمہ داری حزب الاحرار نے قبول کر لی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات کے بعد فوج، ایف سی اور لیویز کی کارروائیوں کے نتیجے میں صورت حال کافی بہتر ہو رہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور مکران میں کئی فراری کمانڈروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے مکمل خاتمے کے لئے ابھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے خاص طورپر ایف سی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی چیک پوسٹوں، گشتی پارٹیوں اور قافلوں پر حملے روکنے کے لئےسیاسی و مذہبی جماعتوں کوبھی اس ضمن میں ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مشترکہ کوششوں کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔