پاکستانی سنیما کا سفر منزل کی تلاش میں ہے

May 01, 2018

لولی وڈ اپنے ارتقاء کے اہم دور سے گزر رہا ہے۔ فلمسازی کی نئی لہر جس کا آغاز 2000 کے اوائل سے ہوا وہ نئے رجحانات کو قائم کرتے ہوئے جاری ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ لولی وڈ نے پچھلے اٹھارہ سال کا سفر تمامتر مشکلات کے باوجود نہایت کامیابی کے ساتھ طے کیا ہے۔ اس سفر میں لولی وڈ کو سب سے زیادہ ساتھ فلمی شائقین کا حاصل رہا۔ پاکستانی فلمی شائقین نے ملک میں فلمسازی کے فروغ کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو سراہا ہے۔ پاکستان میں فلم بینی کے حوالے سے ایک مضبوط روایت موجود رہی ہے۔ اس روایت کی وجہ سے لولی وڈ کی بنیادیں 1947کے بعد مستحکم ہوئیں اور پھر لولی وڈ نے کئی دہائیوں تک فلمی شائقین کو تفریح مہیا کی۔

1990کی دہائی میں آنے والے فلمی بحران سے فلمی شائقین کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب پاکستان میں فلمی صنعت کے احیاء کا آغاز ہوا تو فلمی شائقین نے سینما گھروں کی جانب دوبارہ رخ کیا۔ فلم بینوں نے ہر اچھی فلمی کاوش کو سراہا اور فلموں کو باکس آفس پر کامیاب بنایا۔ اس کے علاوہ ملک میں ملٹی پلیکس کی تعمیر، کارپوریٹ سیکٹر اور ٹی وی چینلز کی سرمایہ کاری اور نوجوان تخلیق کاروں کا فلم بنانے کے حوالے سے میدان میں آنا وہ عوامل ہیں جن کی مدد سے لولی وڈ آج احیاء کی منزل کی جانب گامزن ہے۔

لولی وڈ کا سفر 2018کے بقایا مہینوں اور پھر آنے والے سالوں میں کیسا رہے گا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ لولی وڈ سے وابستہ افراد اور گروہ لولی وڈ کے حوالے سے کس قدر ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی نظام میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان رونما ہوتی تبدیلیوں کا پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی پر گہرا اثر مرتب ہو سکتا ہے۔2018پاکستان میں الیکشن کا سال ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکومتوں کے نزدیک فلمی صنعت سمیت ثقافت کے تمام شعبہ جات کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔

حکومتیں قوموں کی ذہنی و اخلاقی نشوونما کے حوالے سے ثقافت کے کردار کو سرے سے گردانتی ہی نہیں رہی ہیں۔ حکومتوں کو چاہیے تھا کہ وہ ملک میں فلمی صنعت اور ثقافت کے حوالے سے باقاعدہ ایک پالیسی کو ترتیب دیتیں اور اس کو نافذ کرتیں لیکن حکومتوں نے اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس لیے آنے والے مہینوں میں فلمی صنعت کو ایک اہم چیلنج حکومتی عدم سرپرستی اور غفلت کے حوالے سے پیش آئے گا۔

سیاسی حالات میں عدم استحکام اور حکومتی عدم سرپرستی دو ایسے عناصر ہیں جو کہ ملک میں جاری فلمی صنعت کے احیاء کو شدید طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔ فلمی صنعت ہمیشہ سے ہی خود رو پودے کے طور پر پروان چڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لولی وڈ کی پرفارمنس میں تسلسل کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ لولی وڈ کو مستقبل میں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومتی دلچسپی اور سرپرستی کے بغیر فلمی صنعت کا مسلسل ترقی کے سفر پر گامزن رہنا محال نظر آتا ہے۔

فلمی صنعت کو موجودہ سیاسی حالات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنمائوں سے رابطے کرنے چاہئیں اور اس بات پر ان کو قائل کرنا چاہئے کہ وہ اپنے منشور میں فلمی صنعت اور ثقافت کے حوالے سے نکات کو شامل کریں تاکہ مستقبل میں بننے والی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ان کے اپنے منشور کے حوالے سے کیے جانے والے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کہا جا سکے۔

فلمی صنعت کو دوسرا بڑا چیلنج سرمایہ کاری کے حوالے سے پیش آسکتا ہے۔ لولی وڈ کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ فلموں کو بنانے کے حوالے سے کاروباری سوچ کا فقدان ہے۔ پچھلے دس برسوں کے دوران بننے والی فلموں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ٹی وی چینلز، کارپوریٹ سیکٹر اور فلم بنانے کے شوقین افراد نے سرمایہ مہیا کیا ہے۔ لیکن یہ تمام عمل کسی مستحکم بنیاد پر استوار نہیں ہے۔ پچھلے دس برسوں کے دوران فلمسازی کے لیے مستقل اداروں کے قیام کے حوالے سے صرف چند ایک نام ہی سامنے آئے ہیں۔

اگر دنیا میں جاری فلمی کاروبار کا جائزہ لیا جائے تو فلم سازی کے لیے باقاعدہ فلم پروڈکشن ہائوسز قائم ہیں جو کہ کارپوریٹ سیکٹر کی طرز پر کام کرتے ہیں۔ ان اداروں میں ہر وقت فلم میکنگ کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام جاری رہتا ہے۔ ان پراجیکٹس کی فنانسنگ کے لیے بھی مختلف ذرائع کے حصول پر کام ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کے مختلف ممالک میں قائم یہ ادارے مسلسل فلمیں پروڈیوس کرتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ ادارے نئے آنے والے ہدایتکاروں، پروڈیوسرز، کہانی نویسوں، اداکاروں اور تکنیک کاروں کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں۔

لولی وڈ کے لیے ایسے اداروں کا قیام ایک اہم چیلنج ہے۔ ان اداروں کے قیام سے ملک میں جاری فلمسازی کی کوششوں کو تسلسل حاصل ہو گا۔ علاوہ ازیں ملک میں فلم سٹوڈیوز کا قیام بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی بھی فلم سٹوڈیو فعال نہیں ہے جس کی وجہ سے لولی وڈ میں مرکزیت کا شدید بحران ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لولی وڈ کے سرکردہ افراد اس حوالے سے اقدامات اٹھائیں اور پرانے فلم سٹوڈیوز کی بحالی کے ساتھ نئے سٹوڈیوز کی تعمیر کو بھی ممکن بنائیں۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے تاحال کوئی بھی سوچ یا تحریک دکھائی نہیں دیتی۔

مستقبل میں آنے والے چیلنجز میں ایک اہم چیلنج جس کا لولی وڈ کو سامنا کرنا پڑے گا وہ فلم دیکھنے کی ہوم ٹیکنالوجی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ لولی وڈ کی موجودہ ترقی میں پاکستانی فلمی شائقین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ نئے سینما گھروں کی تعمیر اور فلم بینی کے حوالے سے جدید سہولیات کی دستیابی نے بھی لولی وڈ کے احیاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ملٹی پلیکس کی تعمیر اور ان میں دستیاب سہولتوں نے فلمی شائقین کے لیے فلم بینی کا پورا تجربہ تبدیل کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک حالیہ جدت گھروں میں فلمیں دیکھنے کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے۔ الٹرا ہائی ڈیفینیشن سکرین پر نیٹ فلکس اور اس جیسی دوسری آن لائن سروسز کی مدد سے اب فلمی شائقین اپنی فیورٹ فلم کو گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔ الٹرا ہائی ڈیفینیشن سکرین کا سائز سینما گھر کی سکرین کے سائز کے برابر ہوتا ہے۔

اس ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں فلمی شائقین کے رجحان کو بدل دیا ہے۔ پاکستان میں بھی اس ٹیکنالوجی کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ فلمی صنعت کے سرکردہ حلقوں کو اس چیلنج سے کامیابی حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔ علاوہ ازیں موبائل فون کے تفریح کے حوالے سے بڑھتے ہوئے استعمال نے بھی ایک نئے چیلنج کو جنم دیا ہے۔ آن لائن تفریحی مواد کی دستیابی کی وجہ سے دنیا میں فلموں کا بزنس متاثر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں سینما کی تفریح عوام کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔ اس وقت سینما کی ٹکٹوں کی قیمت کافی زیادہ ہے۔ سینما گھروں میں فلم دیکھنا اب صرف امراء کا شوق بنتا جا رہا ہے۔ یہ معاشی چیلنج بھی مستقبل میں لولی وڈ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ملک میں اس وقت اردو ادب کے حوالے سے بھی ادب کا شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔ یہ بھی فلمی صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لولی وڈ سے وابستہ افراد اور گروہ فلمی صنعت کی مسلسل ترقی و ترویج کے حوالے سے منصوبہ بندی کریں اور ایسے اقدامات اٹھائیں جن کی وجہ سے لولی وڈ ترقی کی منزل کی جانب رواں دواں رہے۔