فاٹا کا انضمام اورجموں وکشمیر!

May 04, 2018

فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ شمالی وزیرستان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا میران شاہ میں قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کا امن فاٹا سے جڑا ہوا ہے۔ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانا طویل المدتی ترقی وخوشحالی کے دروازے کی کنجی ہے۔ پاک فوج نے فاٹا میں دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنا کام کردیا ہے۔ اب یہ مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقے میں امن وامان برقرار رکھیں۔ فاٹا میں انگریز دور کا فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز(FCR) رائج ہے۔ اب قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد یہ کالا قانون ختم ہوجائے گا۔ فاٹا کے عوام نے انگریزوں کے دور سے اب تک غیرملکی استعمار کا جوانمردی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور لازوال قربانیاں دی ہیں۔ پاکستانی قبائلی علاقے افغانستان کی سرحد کیساتھ شمال اور جنوب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان، باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم ایجنسی، جنوبی وزیر ستان سمیت فاٹا کے علاقے سات ایجنسیوں یااضلاع پر مشتمل ہیں۔ نائن الیون کے بعد فاٹا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشتگردی پر قابو پانے کے لئے پاک فوج کی قربانیاں لازوال اور ناقابل فراموش ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر معمولی کاوشوں سے وہاں امن وامان بحال ہواہے۔ واقفان حال کاکہنا ہے کہ اس وقت قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لئے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ کار فاٹا تک وسیع کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے میران شاہ میں آرمی انجینئرز کے تعمیر کردہ مارکیٹ کمپلیکس اور دیگر انفراسٹرکچر کا افتتاح کیا جو ڈیرہ اسماعیل خان میں سی پیک کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ٹرمینل شمالی وزیرستان کا بھی افتتاح کیا گیا جوکہ پاک چین سنٹرل کاریڈور کا حصہ ہے۔ اس سے علاقے میں ترقی وخوشحالی کے نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ قبائلی علاقوں کے عوام کی بھی محرومیاں ختم ہوں گی اور ان کو بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام کے مساوی حقوق ملیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا جس کے نتیجے میں افغان سرزمین سے پاکستان میں آنے والی بیرونی دہشتگردی کا اصل نشانہ قبائلی علاقے بنے۔ پاک فوج کو بیرونی دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لئے کئی آپریشن کرنا پڑے۔ اب الحمدللہ فاٹا میں مکمل طور پر امن قائم ہوگیا ہے۔ نائن الیون کے بعد 20لاکھ قبائلیوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ بڑے پیمانے پر وہاں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ 70ہزار سول اور فوجی افراد اس نام نہاد امریکی جنگ میں لقمہ اجل بنے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں مگر امریکہ اور یورپی ممالک نے ان عظیم قربانیوں کا کوئی اعتراف نہیں کیا بلکہ الٹا پاکستان کو ہی ہمیشہ مورد الزام ٹھہرایا۔ اب بھی امریکہ افغانستان میں بھارت کو سر آنکھوں پر بٹھا رہا ہے۔ پاکستان کے تحفظات کے باوجود افغانستان میں انڈیا امریکی چھتری تلے ہمارے ہاں دہشت گردی کے واقعات کروا رہا ہے۔ اگرچہ بیرونی دہشتگردی کی ان وارداتوں میں کافی کمی آچکی ہے لیکن کبھی کبھار افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستانی بارڈر پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر ہماری فوجی چیک پوسٹوں پر حملے کروا رہی ہے۔ پاک فوج کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس نے دہشت گردی کو افغانستان میں واپس دھکیل دیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے عوام نڈر، غیور اور محب وطن ہیں۔ قائداعظم نے انہیں بازوئے شمشیر زن قراردیا تھا۔ میران شاہ شمالی وزیرستان کا مرکزی مقام ہے اور وسط ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ اُسکے سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے سے پاکستان کو تجارتی لحاظ سے خاصا فائدہ ہوگا۔ وسط ایشیا کے ممالک بھی اسی راستے سے اقتصادی راہداری سے جڑ سکیں گے۔ تجارتی لحاظ سے یہ علاقہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خوش آئند امریہ ہے کہ پاکستان کی تمام قابل ذکر دینی و سیاسی جماعتیں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں ہیں۔ اب میران شاہ، لنڈی کوتل، پارہ چنار اور خار جیسے قبائلی علاقے بھی پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح ترقی کی منازل طے کریں گے۔ چند ہفتے قبل فاٹا کے علاقوں کا کنٹرول سول انتظامیہ کے سپرد کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا لیکن یہ ازحد ضروری ہے کہ اس عمل کو تیز تر کیا جائے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو فاٹا اصلاحات کا مکمل نفاذ کرنا چاہئے۔ اگر وہ نگران حکومت سے پہلے اپنے دوراقتدار میں فاٹا اصلاحات رائج کردیتے ہیں تو اس سارے عمل میں تاخیر نہ ہوتی۔ قبائلی علاقوں کو جلد ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ مقامی قبائل بھی یہی چاہتے ہیں کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ فاٹا میں ترقی و خوشحالی سے پاکستان میں امن و استحکام آئے گا۔ ملکی معیشت بہتر ہوگی اور سی پیک کا عمل تیزی سے آگے بڑھ سکے گا۔ اسی طرح افغانستان میں بھی حالات بہتر کرنے کیلئے پاکستان اپنا مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔ امریکہ اگر اصل اسٹیک ہولڈرز افغان طالبان، حزب اسلامی اور شمالی اتحاد سے بامقصد اور بامعنی مذاکرات کرے تو وہاں بہت جلد بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ فاٹا اور افغانستان میں امن کے قیام سے جنوبی ایشیا میں جوہری تبدیلی آئے گی اورجموں و کشمیر کا دیرینہ معاملہ بھی جلد حل ہوسکے گا۔ قائداعظمؒ جموں وکشمیر کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ اپنے آخری ایام میں بھی جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے فکرمند تھے۔ قائداعظمؒ کی زندگی پر دلچسپ واقعات پر مشتمل ملک کے نامور صحافی ء شاہد کی کتاب ’’سچا اور کھرا لیڈر‘‘حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں صدرمملکت ممنون حسین نے بھی اس تاریخی کتاب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اور اسے پاکستان کی ہر لائبریری کی ضرورت قرار دیا ہے۔ ضیاء شاہد اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ بانی پاکستان کی زندگی کے ایسے دلچسپ واقعات ایک جگہ جمع کئے گئے ہیں کہ جنہیں پڑھیں گے تو بے اختیار داد دینگے کہ آج کے نفسانفسی، لوٹ کھسوٹ، دنیاداری، بے فکری اور بے راہ روی کے دور میں جیسے ہمیں ایک راستہ مل گیا ہے۔ قائداعظمؒ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ میرے بنائے گئے پاکستان میں اگر غریب کو روٹی، محروم کو چھت اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا تو مجھے ایسا ملک نہیں چاہئے۔ اسوقت جموں و کشمیر میں تحریک آزادی اپنے عروج پر ہے۔ آئے روز وہاں معصوم اور بے گناہ کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے بھی جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے لیکن امریکہ اور یورپی ممالک ٹس سے مس نہیں ہو رہے بلکہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)