ریاست ،سیاست اور قوم کی بقا

May 08, 2018

ہم اس عظیم مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے، لیکن ہم اس دنیا کے باسی ہیں کہ جہاں بعض لوگ اسی پرامن مذہب کے نام پر بے گناہوں کو مارنا حق سمجھتے ہیں۔ ہم زبان، مکالمہ، بحث، مقدمہ کے بجائے خنجر، تلوار اور گولی کو پہلا اور واحد ذریعہ قرار دے کر اپنی بات منوانا اور مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ واحد لاشریک نے واضح تاکید جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بھی فرمائی تھی۔ سورہ المائدہ میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں ’’انسان کی یہی سرکشی ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسی کو شریعت دی تو اس میں) بنی اسرائیل پر بھی اپنا یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اسکے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘
رب العالمین غفورالرحیم ایک اور جگہ حکم فرماتے ہیں کہ ’’اس شخص کی سزا، جہنم ہے جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اللہ کی لعنت ہے، اور اللہ پاک نے اس کے لئے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ہم اپنے چند فٹ کے مٹی کے وجود پر ذرا نظر تو ڈالیں تو خود کو طاقتور انسان ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اپنے اعمال کو دیکھیں تو انسانیت ہم سے شرمانے لگتی ہے، گویا ہم کس قدر دوہری اذیت کے شکار انسان ہیں کہ ہم اس دائمی عقیدے واعتقاد کے قائل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود ہی اسی پیدا کرنے والے رب کے احکامات کی نفی بھی کرتے ہیں۔ اتوار کی سہ پہر ایک نہتے شخص کو جو خود ایک دھمیے مزاج کا آدمی ہے، نمازی ہے اور چہرے پر سنت رسول سجائے ہوئے ہے، جانے کس ’’نفرت‘‘ سے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، بھلا اس کی جان اور ایمان سے کسی کو کیا خطرہ ہے کوئی یہ بتا سکتا ہے؟ شاید اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہے اور وزیر ہے؟ شاید اس لئے کہ وہ اپنی سوچ اور خیالات کا اظہار کرتا ہے؟ شاید اس لئے کہ اس کے فلسفہ سیاست سے اختلاف ہے؟ اگر یہ سب نہیں تو پھر وجہ کیا ہے کہ ایک انسان کی جان لینے پر مصر ہوا جائے؟ کبھی اللہ کے گھر میں آئے کسی کو سیاسی رہنما کو جوتا مارا جائے، کسی پر سیاہی پھینکی جائے اور کبھی جان ہی لینے کی کوشش کی جائے، بقول ایک تفتیشی آفیسر کہ ملزم نے چار فائر کئے، ایک لگا کیونکہ بچانے والا زیادہ طاقتور ہے۔ ملزم کی جیب سے ایک ہزار روپے بھی نکلے جو اس نے پمفلٹ تقسیم کر کے کمائے تھے۔ واللہ وعلم۔
ہم سب جانتے اور اچھی طرح سمجھ بوجھ رکھتے کہ کیا ہورہا ہے۔ معذرت کے ساتھ پوری دنیا بھی اچھی طرح سمجھتی ہے۔ کیونکہ یہ آگ انہی کی بھڑکائی ہوئی ہے۔ یہ کہانی بہت پرانی بھی ہے، لیکن غلطیاں ہماری اپنی ہیں جن کا خمیازہ ہمیں آج خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ بیج ہم نے کسی دوسرے کے کہنے پر اپنے ہاں خود بویا جو آج ہم کاٹ رہے ہیں۔ ہم نے ریاستی وسائل کو عوام کی فلاح کے بجائے انتہاپسندی کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔ مذہب حکومت یا ریاست کا نہیں مکمل ذاتی معاملہ ہے لیکن اب یہ معاملہ تو ریاست سے بھی آگے نکل چکا، عدم برداشت کی انتہا یہ ہے کہ اگر ہمیں دوسرے کی بات اچھی نہیں لگے تو اس سے اختلاف یا جواب دینے کی بجائے اس آواز کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ہم نے چار سال پہلے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کا 20نکاتی ایکشن پلان اور قومی سلامتی پالیسی بھی اسی مرض کے علاج کے لئے بنائی جس کا عملی نمونہ یہ نکلا کہ اسلام آباد کئی ہفتے کے لئے یرغمال بنایا گیا تو کرایہ ادائیگی اور ملزمان کی باعزت رہائی سے رٹ بحال کی گئی۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑی قربانی دے کر جیتنے کے آخری مرحلے میں ہیں لیکن اس سے بڑا عفریت انتہا پسندی ہے اس جن کو بوتل میں بند کون کرے گا؟ کیا نیشنل ایکشن پلان اس دن مر نہیں جاتا جب کوئی مذہب یا جہاد یا خاص حق کا علم اٹھاتا ہے اور ریاست پر چڑھ دوڑتا ہے، گلے کاٹتا ہے، حکومت کو مفلوج اورعوام کو بے دست وپا بنا دیتا ہے، کوئی بتائے کہ ریاست اور اس کی خلقت کا کیا قصور ہے؟ بقول کلیم عاجز
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو،
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامت کرو ہو
سماجی ومعاشرتی ناقدین کی نظر میں ہم سب سیاسی سے زیادہ ریاستی سطح پر ’’آئیڈینٹٹی کرائسسز‘‘ یعنی شناخت کے بحران کا شکار لگتےہیں، ہم میوزک (گانے، ملی نغمے، قوالی کی صورت میں) سننا بھی چاہتے ہیں لیکن ابھی تک طےنہیں کرسکے کہ میوزک جائز ہے یا ناجائز، بینکنگ کا نظام سود پر استوار کر رکھا ہے، کھا بھی رہے ہیں لیکن اسلامی بینکنگ کا نام لگا کر خود کو تسلی دے کر بچانا چاہتے ہیں، اپنا پیغام ٹی وی کے ذریعے پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں اور تصویر کھنچوانا بھی گناہ سمجھتے ہیں، جھوٹ، غیبت، چوری اور دوسرے کا نقصان کرنا غلط سمجھتے ہیں لیکن خود منع ہونے کی بجائے سارا زور دوسروں کو روکنے پر لگاتے ہیں، اپنے لئے ’’سب کچھ‘‘ جائز اور دوسروں کے کچھ بھی جائز نہیں سمجھتے۔ ہم اس پاک مٹی اور اس کے باسیوں سے پیار کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور پھر ان کا تقدس پامال اور بے حرمتی کرنا بھی حق سمجھتے ہیں، دراصل یہ ذہن ہیں جو بند تو ہیں ہی کند ذہن بھی ہیں، پھر یہی ذہن برین واشنگ نہیں بلکہ برین فلنگ ہوتے ہیں اور نتیجتاً قانون اور ریاست کی عمل درآمدی کی بجائے پورا نظامِ ریاست ان کا محتاج ہو جاتا ہے۔ آج نہیں برسوں پہلے سے ہم دوراہے پر کھڑے ہیں پر تھکے نہیں۔ ماضی قریب میں جھانکیں، ایک نہتی خاتون جو اپنے بھائیوں اور انصاف کی بھینٹ چڑھنے والے باپ کے خون کا حساب مانگنے کی بجائے صرف ڈائیلاگ اور محبت بانٹنے کی سوچ اور ریاست کے اتحاد کا پیغام دے رہی تھی اس کو27 دسمبر 2007ء کی شام سفاکی کے ساتھ سرعام دھماکے اور گولیوں کا نشانہ بناکر شہید کر دیا جاتا ہے، اس عظیم شہادت کے بعد بعض سیاسی قائدین2008 ء کے عام انتخابات کے حق میں نہیں تھے لیکن واہ ان سیاسی ورکرز پر جنہوں نے تمام خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنایا کیونکہ وہ9سالہ ڈکٹیٹر شپ کے مضبوط اقتدار کے لرزاں ستونوں کی زمین بوسی سےعوامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اس ملک میں ریاست مضبوط اور سیاست بحال ہوگی تو جمہور آزادی اور خوشحالی کا دور دیکھیں گے، 2008 کے انتخابات خوف کے سائے میں ہوئے تو2013کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی مضبوط روشن خیال جماعتوں کے لئے سیاسی مہم شجر ممنوعہ بن گئی۔ کئی مارشلائی جمہوریت پسند اور جمہوریت نواز ریاست کی بجائے محض اپنی ذات کی تکمیل کے لئے اقتدار کو منزل سمجھ بیٹھے اور ریاست مزید بدترین اور سنگین چیلنجز کا شکار ہوگی۔ وقت بہت ظالم ہے اسی المیے کا سامنا اب سب سے بڑی اکثریتی جماعت کو درپیش ہے۔ اگر کوئی اس عذاب مسلسل سے نجات کا حل پوچھے تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں، تمام ریاستی ادارے، ہر مکتب فکر کے علماء کرام، درس وتدریس اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین، معاشرے کے اکابرین گرینڈ ڈائیلاگ کے لئے ایک جگہ مل بیٹھیں اور اس وقت تک بیٹھیں جب تک پہلے قوم کے سامنے کھلے دل سے موجودہ حالات کی ذمہ داری قبول اور اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرلیں۔ اس معاشرے کو انسانوں کا معاشرہ اور ایک قوم بنانے کا تہیہ کریں، دنیا جو کہہ رہی اس کو غور سے سنیں۔ خدارا سوچیں کہ ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، اب تو خود کو تقسیم کرنا بند کریں، دین اسلام دین فطرت ہے، دہشت گردی، انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں، یہ ملک سب کا ہے، سیاسی واحتسابی انتہا پسندی کے خاتمہ کا مشترکہ لائحہ عمل بھی تیار کریں، سب کو یکساں سیاسی بقا کے مواقع دینے کا اعلان اور جیو اور جینے دو کا حق دیں، کراماتی قتل بند کریں، خوف کی بجائے بلاخطر بروقت عام انتخابات اور بلٹ کی بجائے بیلٹ سے فیصلوں کی راہ ہموار کریں اسی میں ریاست، سیاست اور قوم کی بقا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)