’’نیا مستقبل‘‘ سعودی عرب کانیا شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ

May 27, 2018

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (MBS) نے ملکی معیشت کا انحصار تیل کی دولت پر کم کرنے اور معیشت کو کثیرالجہتی بنانے کے لیے ویژن 2030کے تحت کئی بڑے منصوبے متعارف کرائے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا منصوبہ بحیرہ احمر کے کنارے مصر اور اُردن کے سرحدی علاقوں تک پھیلے صنعتی شہر ’نیوم‘ کا ہے۔ ’نیوم‘ عربی کے دو الفاظ ’نیو‘ (نیا) اور ’مستقبل‘کے لفظ سے ’م‘ کو لے کر بنایا گیا ہے؛ اس کا مطلب ہے ’نیا مستقبل‘۔

اس ساحلی شہر کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ500ارب ڈالرزہے۔ یہ شہر آزاد اور خود مختار حیثیت میں کام کرے گا۔ اس شہر کا حکومتی ڈھانچہ سعودی حکومتی ڈھانچے سے بالکل مختلف ہوگا، جس کا نظم و نسق ایک آزاد اور خود مختار باڈی چلائے گی۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے سعودی اور بین الااقوامی سرمایہ کاروں کی اعانت سے ایک خود مختار ویلتھ فنڈ قائم کیا گیا ہے۔اس شہر میں رہنے والوں کا لائف اسٹائل کیا ہوگا؟ اس بات اندازہ اس ویڈیو سے لگایا جاسکتا ہے، جو مستقبل کے اس شہر کے حوالے سے سعودی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر جاری کی گئی ہے۔ ویڈیو میں دِکھایا جانے والا طرزِزندگی سعودی عرب کے موجودہ کلچر سے بالکل مختلف نظر آتا ہے؛ خواتین عام ملبوسات میں عوامی مقامات میں جاگنگ، مردوں کے ساتھ کام اور موسیقی کے آلات بجا رہی ہیں، جب کہ ہر چیز انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہے، وغیرہ وغیرہ۔

منصوبے کے تحت 9اقتصادی محاور (Economic Zones) بنائے جائیں گے۔ ان میں توانائی، پانی، ٹرانسپورٹ، بائیو ٹیکنالوجی، خوراک، ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل سائنسز، ایڈوانسڈ مینوفیکچرنگ، اطلاعات، میڈیا پروڈکشن، معیشت اور تفریح جیسے منصوبے شامل ہیں۔ ’نیوم‘ شہر کتنا بڑا ہوگا؟ اس کا اندازہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ تقابلی جائزہ کرکے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی شہر کا مجموعی رقبہ 3,780مربع کلومیٹر ہے۔ نیوم شہر کا رقبہ 26ہزار مربع کلو میٹر ہوگا۔ یہ رقبہ تین ممالک سے لیا جائے گا۔ سعودی عرب کے شمال مغرب میں بحر الاحمر، اُردن کی وادی العقبہ اور مصر کے جزیرہ سیناء کا ایک ہزار مربع کلو میٹر کا رقبہ لیا جائے گا۔جنوبی سیناء سے شرم الشیخ تک اس منصوبے کو ایک پُل کے ذریعے ملایا جائے گا جسے ’کنگ سلمان بریج‘ کا نام دیا جائے گا۔ اس بڑے منصوبے کا پہلا مرحلہ نیوم خلیج ہوگا جو نیو یارک کے ہیمپٹنس (Hamptons)کی طرح کا ہوگا۔

’’نیوم‘‘ میں بجلی کس طرح پیدا کی جائے گی؟

اس شہر کے لیے حرکی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے گی۔ یعنی شاہراہ پر گاڑیوں کے ٹائروں کے چلنے سے بجلی پیدا ہوگی۔ اسے کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ راستے میں ڈھلواں قدم بنائے گئے ہیں ۔وہ ٹربائینوں سے مربوط ہوں گے اور ان پر چلنے والی کاروں کے ٹائروں کی رگڑ سے بجلی پیدا ہوگی۔ گاڑیوں کی رفتار اور دباؤ سے توانائی پیدا ہوگی اور پھر اس کو بجلی میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس ٹیکنالوجی کے مؤجدمشعل الحراسانی کہتے ہیں، ’’ سعودی ویژن 2030ء کے ساتھ ہمارا ملک بھی پہلی دنیا میں شمار ہونے جارہا ہے۔ہماری حکومت سعودی نوجوانوں اور ان کی صلاحیتوں میں یقین رکھتی ہے اور ہم اپنے ملک کی تعمیر وترقی کا جذبہ رکھتے ہیں‘‘۔ مشعل الحراسانی اس وقت جامعہ شاہ عبدالعزیز میں نائب صدر برائے کاروبار اور علمی تخلیق کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیوم مستقبل کا منصوبہ ہے اور مستقبل پائیدار توانائی میں پنہاں ہے۔

’نیوم‘ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ’نیوم‘ شہر کی پہلی شہریت کسے دی گئی ہے؟ یہ شہریت کسی انسان کو نہیں بلکہ مشہورِ زمانہ روبوٹ ’صوفیا‘ کو تفویض کی گئی ہے۔ سعودی حکمراں اس شہر کو مستقبل کےبہترین ’اسمارٹ سٹی‘ کے طور پر پروجیکٹ کر رہے ہیں، جہاں مصنوعی ذہانت کا استعمال عروج پر ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ’نیوم‘ ایپلی کیشن بھی ڈیویلپ کی جائے گی۔ اس شہر کی ہر چیز نیوم ایپلی کیشن سے منسلک ہوگی اور شہری اس ایپلی کیشن کے ذریعے جو چاہیں گے، کرسکیں گے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک غیرملکی جریدے کو انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اس شہر میں کوئی سپرمارکیٹ نہیں ہوگی، بلکہ جو چیز بھی آپ کو چاہیے ہوگی، وہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے آپ کے گھر پہنچادی جائے گی۔آج جتنے بھی کلائوڈز دست یاب ہیں، وہ سب علیحدہ علیحدہ ہیں۔ گاڑی سے لے کر ایپل واچ تک سب کچھ الگ الگ ہے، جب کہ نیوم میں سب کچھ ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہوگا، لہٰذا نیوم میں کوئی بھی شخص نیوم ایپلی کیشن کے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

کیا پاکستان ’نیوم‘ سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے؟

وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے مطابق 16 لاکھ پاکستانی روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاچکے ہیں۔ پاکستان کا شمار اُن ملکوں میں ہوتا ہے، جو سعودی عرب سے سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر حاصل کرتے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے10ماہ کے دوران جولائی 2017 سے اپریل 2018تک پاکستان، سعودی عرب سے 3ارب 99 کروڑ 56 لاکھ ڈالر (تقریباً 4 ارب ڈالر) کی ترسیلاتِ زر وصول کرچکا ہے۔ سعودی معیشت میں آنے والی ان تبدیلیوں کوپاکستان اپنے لیے شاندار مواقع میں بدل سکتا ہے۔ غیر ملکی ورکرز کو جائیداد خریدنے کی اجازت دینے سے پاکستانی کاروباری افراد کے لیے بے تحاشہ نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ریٹیل کے شعبے میں ای کامرس کو 80فی صد تک بڑھانے کا منصوبہ بھی پاکستان کے لیے ’کاروبار کے نئے مواقع‘ کی نوید ہے۔