ٹی وی شوز میں بھی تھپڑوں کا رواج

May 29, 2018

کسی بھی سیاسی نمائندے کی ذمے داری محض اپنی جماعت کے سیاسی ایجنڈے پر کام کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ وطن کا استحکام ہر مفاد پر مقدم رکھنا بھی اہم ذمہ داری ہے۔ مگر دور حاضر میں ہم بتدریج صرف معاشرتی ہی نہیں بلکہ سیاسی زبوں حالی کا بھی شکار ہوتے جارہے ہیں، ـ کسی زمانے میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہونا اور برے القابات سے پکارنا جیسے فعل کو ناخواندگی کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا مگر اس دور میں تو نام نہاد پڑھے لکھے اور بظاہر با شعور نظر آنے والے لوگ بھی اخلاقیات سے عاری نظرآتے ہیں۔

حال ہی میں جیو نیوز کے پروگرام ’آپس کی بات ‘میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے لائیو پروگرام کے دوران پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور وزیر مملکت برائے نجکاری دانیال عزیز کو تھپڑ رسید کر دیا،تھپڑ کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا تھپڑ وں اور مار پیٹ کایہ رواج پارلیمنٹ اور سینیٹ سے ہوتا ہوا اب ٹی وی ٹاک شوز میں بھی چل پڑے گا؟

واضح رہے کہ نعیم الحق ایک مرتبہ پہلے بھی لائیوشو میں اس طر ح کی بدتمیزی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما جمیل سومروکے ساتھ کر چکے ہیں۔

تھپڑ کے بعد پاکستانی سیاست دانوں کی جانب سے مختلف بیانات سامنے آئے۔ پاکستان مسلم لیگ کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے داماد کی جانب سے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

سابق وزیر اعظم نے دانیال عزیز کو تھپڑ مارنے کے عمل پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ تھپڑ مارنا پی ٹی آئی کا کلچر ہے اور اس کے ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں۔

مسلم لیگ کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تھپڑ دانیال عزیز کو نہیں بلکہ پا رلیمان کے منہ پر مارا گیا ہے۔

چلیے یہ بیان تو حکمراں جماعت اور جس جماعت کے رہنما کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اس کے رہنماؤں کا ردعمل ہے۔ مگر اس واقعے کے بعد بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ؟

عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا تے ہیں،اگر وہ اتنے ہی تبدیلی پسند انسان ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ اگر کوئی کسی کی بھی تذلیل کرے ،چاہے وہ تذلیل مخالف پارٹی کے رہنماکی ہی کیوں نہ ہوئی ہو، انہیں تذلیل کرنے والے اپنے پارٹی رہنما کے خلاف کوئی نوٹس لینا چاہیے تھا، اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے وہ نعیم الحق کو پارٹی سے نہ نکالتے تو کم از کم اس واقعے کی مذمت ضرور کرتے ۔مگر افسوس ان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنےنہیں آیا جو کہ افسوس ناک واقعہ ہے۔

اس معاملے پرپیمرا کی جانب سے نوٹس لینا تو دور کی بات کوئی افسوس تک نہیں کیاگیا ،یہ بات بھی المیہ ہے کہ آخرپیمرا نے اس واقعے کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟

اس معاملے پر پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس ثاقب نثار سے ہی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ پیمرا کو اس بات کا پابند کریں کہ پیمرا اس طرح کے معاملات کا نوٹس لے اور جو بھی اس کا ذمہ دار ہو اس کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ اس طرح کے رد عمل کے سلسلے کو یہیں روکا جاسکے۔

اس کے ساتھ ہی میڈیا چینلز پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کوٹی وی ٹاک شوز میں مدعونہ کریں جو اپنے غصہ پر قابو نہ رکھ سکتے ہوں، اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور جرنلزم کی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان غیر اخلاقی اور نا شائستہ حرکات کا ارتکاب کرنے والے افراد پر لائیو شو میں شرکت پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔

من حیث القوم اور بحیثیت پاکستانی ہمیں اپنا مثبت تشخص اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر کسی پر بھی ہاتھ اٹھانے ،جوتا یا سیاہی پھینکنے کا عمل کسی طور بھی درست نہیں ہے اور یہ مہذب قوموںکا خاصہ نہیں ۔