پاکستانی فلموں میں مزدور طبقے کی نمایندگی

May 29, 2018

60اور 70 کی دھائیاں پاکستانی سینما کے ارتقاء و عروج کی تھیں، جب بڑے پیمانے پر فلموں کی تیاری کے ضمن میں دل کھول کر سرمایہ کاری کی گئی۔ ہمہ جہت موضوعات پر کام ہوا۔ زیادہ تر فلم میکرز کی سوچ اور خواہش یہی ہوا کرتی تھی کہ وہ عوام کی پسند اور ڈیمانڈ کو پیش نظر رکھ کر فلمیں بنائیں اور جب عوامی نفسیات سے قریب تر ہوکر موضوعات چُنے جاتے تھے، تو کہانی میں جو لیڈ کیریکٹر کرتے تھے، وہ عوام ہی کے نمائندہ کرداروں کی تمثیل ہوا کرتے تھے۔ یعنی اکثر فلم کے ہیروز کو ورکنگ کلاس کا نمائندہ دکھایا جاتا تھا۔ مثلاً مِل مزدور، گاڑی بان، موٹر میکنیک، نوکر، ماہی گیر، گلوکار وغیرہ، چوں کہ اس نوعیت کے کرداروں سے ایک عام آدمی کا کثرت سے سابقہ پڑتا ہے۔ ایسے کردار عام آدمی کی روز مرہ زندگی کے مشاہدے اور تعلق کا حصہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کی ان سے متعلق آگہی زیادہ ہوتی ہے اور جب وہ انہیں پردہ سیمیں پر دیکھتا ہے تو اس کی اس قبیل کی فلم میں انوالمینٹ بہت گہری ہوتی ہے ۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ایک ویل کوالیفائیڈ فن کار تھے۔ انہوں نے اپنی ہوم پروڈکشن ’’ہیرا اور پتھر‘‘ میں جب خود ہیرو آنے کا فیصلہ کیا تو اپنے لیے ایک ’’گاڑی بان‘‘ یعنی گدھا گاڑی چلانے والے لیاری کے مزدور کا کردار منتخب کیا۔ حالاں کہ وہ چاہتے تو اپنے لیے کسی بیورو کریٹ کسی فیوڈل یا کسی سیاست دان کا کردار بھی لکھوا سکتے تھے، لیکن انہوں نے عوامی پسند اور تقاضے کو پیش نظر رکھ کر ایک نچلی کلاس کے نمائندہ کردار کو اپنے لیے چنا اور جب ’’ہیرا اور پتھر‘‘منظر عام پر آئی، تو نہ صرف فلم نے باکس آفس پر دُھوم مچادی بلکہ ہر طرف گدھا گاڑی بان ’’جانو‘‘ کا نام گونجنے لگا۔ وحید مراد ہی نے جب پہلی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ پروڈیوس کی تو اس میں بھی اگر ایک طرف وہ ڈاکٹر تھے، تو دوسری جانب ’’پوسٹ مین‘‘ جیسے عوامی کردار کی نمائندگی بھی کررے تھے، بالکل اسی طرح ’’مستانہ ماہی‘‘ سے قبل ’’سمندر‘‘ میں وحید مراد نے خود کو ایک ماہی گیر کے کردار کی تمثیل پیش کرنے کی ذمے داری سنبھالی اور ان کرداروں کو عوامی سطح پر جو پزیرائی ملی، اس سے ہر فلم بین آگاہ ہیں۔ ندیم نے ’’مٹی کے پتلے‘‘ پروڈیوس کی تو مل مزدوروں کی زندگی کو اپنی کہانی کا مرکز و محور بنایا۔ طارق عزیز ’’ساجن رنگ رنگیلا‘‘ کے عنوان سے جو فلم بنائی۔ اس کا ہیرو بھی ایک فیکٹری مزدور تھا اور یہ کردار خود طارق عزیز نے ادا کیا تھا۔ اقبال کشمیری نے پنابی زبان میں ٹیکسی ڈرائیور بنائی، تو کہانی کا مرکزی ہیرو ایک محنت کش بہادر اور دیانت دار ’’ٹیکسی ڈائیور‘‘ تھا۔ اس کردار کی تمثیل لیجنڈری فن کار یوسف خان نے کمال فن کےساتھ نبھائی۔ عوامی سطح پر اس کردار کو بہت زیادہ پزیرائی ملی۔ اسلم ڈار کی معرکۃ آلار تخلیق ’’دل لگی‘‘ میں ندیم ایک موٹر میکنیک کے روپ میں سامنے آئے، تو عوام کے دلوں میں ان کی پرفارمنس کا ایک ایک نقش ثبت ہوگیا۔ ہر طرف دل لگی کے ’’راجا‘‘ موٹر میکنیک کی دُھوم مچ گئی۔ موٹر میکنیک کے عوامی کردار اس عہد کے فلم بینوں کو خوب یاد ہے۔

فیملی برانڈ فلموں کے سرخیل شباب کیرانوی نے آئینہ اور صورت میں لیجنڈری فن کار محمد علی کو ایک جفا کش اور بہادر دیہاتی کسان کے روپ میں پیش کیا۔ تو سارا عالم اس کردار کی ایک ایک ادا اور ان کے ادا کردہ ایک ایک مکالمے کا شیدائی ہوگیا۔ ہر طرف ان کے چرچے سنائی دیے، جس زبان اور کلچر کی یہ فلم عکاس تھی، اس کلچر کی امین روہتلی برادری نے ممدو کسان کی پزیرائی کے طور پر محمد علی کی تاج پوشی کا شان دار اہتمام کر کے اس عوامی کردار کی اہمیت اور پسندیدگی کو اجاگر کیا۔ آئینہ اور صورت سے قبل 60 کی دہائی میں بننے والی شباب صاحب کی تخلیق ’’مہتاب‘‘ میں عوامی فن کار علائو الدین نے ’’گول گپے‘‘ فروش کے کردار میں وہ پرفارمنس پیش کی کہ ان پر فلمایا گیا گیت ’’گول گپے والا آیا گول گپے لایا‘‘۔ گول گپے فروشوں کے لبوں کی صدا بن گیا۔ اگر آپ کو کہیں سے بھی آج اس گیت کی صدا سنائی دے تو سمجھ لیجیے کہ کوئی گول گپا فروش آپ کی گلی سے گزر رہا ہے اور اس کے ریکارڈ پر یہ گیت بج رہا ہے۔ یہ تمام ماضی کی مثالیں ہم نے اس لیے دی ہیں کہ ریڈرز بخوبی جان لیں کہ فلم وہی مقبول اور پسندیدہ ٹھہرتی ہیں جنہیں عوام کو اپنے اردگرد کے کرداروں اور ماحول کی بوباس محسوس ہوتی ہو، لیکن ریوائیول آف سینما کے ضمن میں آج کل جو فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ انہیں عوامی نوعیت کے کرداروں کی موجودگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج کی فلم کے لیڈر کرداروں کو نہ جانے کیوں بہتات اور کثرت سے راک سنگر دکھانے پر ہمارے فلم میکرز کا زیادہ فوکس ہے۔ شعیب منصور کی خدا کے لیے اور بول کے ہیروز چوں کہ راک سنگر تھے، لہٰذا ان کے بعد آنے والی فلموں کے ہیرو کو متعدد فلموں میں راک سنگرز دکھایا گیا۔ مثلاً وجاہت رئوف کی ’’لاہور سے آگے‘‘ میں صبا قمر ایک راک سنگر تھیں، عاصم رضا کی ’’ہومن جہاں‘‘میں ماہرہ خان اور شہریار منور بھی راک سنگرز کے روپ میں نظر آئے ۔ شان کی ارتھ 2میں خود شان اسی قبیل کے کردار کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔ ہمیں سنگر کا کردار دکھانے پر کوئی اعتراض نہیں، مگر ’’راک سنگر‘‘ دکھانے پر اعتراض ہے اور وہ یوں کہ راک سنگر عوامی کردار نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص کلاس جسے ہم جینٹری کلاس کہتے ہیں، اس کی نمائندگی کرتا ہے، اس کے برعکس ماضی کی فلموں میں سنگر ان منٹ اور کلاسیکل گائیک دکھایا جاتا تھا۔ جو حقیقی معنوں میں عوامی ماحول اور معاشرے کا عکاس تھا۔ جیسے کہ قدیر غوری کی موسیقار میں سنتوش کمار اور صبیحہ خانم کے کردار ’’کوئیل‘‘ میں علائو الدین اور نور جہاں کے کردار ’’انتظار‘‘ میں میڈم نور جہاں کا کردار۔ ’’مہربانی‘‘ میں ندیم کا کردار۔ ان کرداروں کو کس قدر پزیرائی ملی تھی۔ ان پر فلم بند گیتوں کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے اور وہ کردار آج بھی اپنی خصوصیات کے سبب فلم ویورز نہیں بھولے۔ اس کے برعکس حالیہ فلموں کے راک سنگرز کیا کسی حوالے سے فلم بینوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا!! کیوں کہ یہ راک سنگر ٹائپ کردار 10 پرسینٹ فلم ویورز کی پسند کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بھلا انہیں کیون کر 90 فیصد ماسیس کلاس کی پزیرائی مل سکتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ’’یاسر نواز‘‘ نے اپنی فلم ’’رانگ نمبر‘‘ میں جاوید شیخ کو حاجی ابا قصاب کے رول میں پیش کر کے عوامی کلاس ہی نہیں بلکہ خواص کو بھی سراہنے اور پزیرائی کرنے پر مجبور کردیا۔ یہ بھی ایک ٹھوس نظیر ہے کہ آج بھی ورکنگ کلاس کی نمائندگی کرنے والے کرداروں کو ہی غیر معمولی پزیرائی حاصل ہے۔ اس ضمن میں نبیل قریشی کی نامعلوم افراد میں فہد مصطفیٰ کا کردار بھی قابل ذکر ہے، جو ایک بیمہ پالیسی فروخت کرنے والے بیمہ ایجنٹ کا رول تھا۔ اس کے بھی خوب پزیرائی ملی، مگر حالیہ فلموں اسے یہی ایک دو مثالیں بمشکل تمام ملتی ہیں ورنہ آج کی فلم سے ورکنگ کلاس کے نمائندہ کردار مفقود نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو فلمیں سپر ڈوپر ہٹ ہوکر کروڑوں کا بزنس کرتی ہیں۔ ان کے کردار بھی لوگوں کے حافظے سے فوراً محو ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ایسے کردار جن کی جڑیں عوام میں نہ ہوں، وہ بھلا کیوں کہ عوام کو یاد رہ سکتے ہیں اور آج کے فلم میکرز کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کی فلموں کے کردار کیا 90 فی صد عوامی کلاس کی نمائندگی کررہے ہیں یا نہیں۔