کام بھی، شوق کی تکمیل بھی

June 02, 2018

سید اطہر حسین نقوی

ہماری نوجوان نسل دیگر اقوام کے نوجوانوں کی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں کامرانیاں حاصل کرنے کی خواہش مند ہے، اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ اپنی تعلیمی، سماجی اور معاشی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کی تسکین کے لیےمختلف سرگرمیوں میں مصروف رہ کر اپنے پسندیدہ شعبہ جات میں آگے بڑھنے کی تیاری کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنی ذہنی تخلیقی صلاحیتوں سے اپنے جذبات، احساسات کے ذریعے اپنی فکری سوچ کو کسی نہ کسی طریقے سے دُنیا کے سامنے لائیں اور دیگر نوجوانوں کو بھی اس طرف راغب کر سکیں۔ آج کل ہمارے نوجوان جن اہم شعبوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اُن کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

فوٹوگرافی

ایک زمانہ تھا کہ فوٹو گرافی کا شعبہ صرف اسٹوڈیو تک محدود تک یا پھر خبروں اور ڈراموں تک اس کی رسائی تھی۔ شہر میں دوچار معروف اسٹوڈیو ہوتے تھے جہاں طلبا و طالبات تدریس کے لیےپاسپورٹ سائز فوٹو بنواتے،اسی طرح جائیداد کی خرید و فروخت اور روزگار کے حصول کے لیے تصاویر کھینچی جاتی تھیں یا پھر اخبارات، فلم اور ڈراموں کے لیے فوٹو گرافی کا شعبہ کام کرتا تھا، اُس زمانے میں مخصوص ٹائپ کے کیمرے ہوتے تھے ،جس سے عام شخص شادی بیاہ دیگر تقریبات کی چند تصاویر کھینچی جاتی تھیں۔ لیکن 1980ء کی دَہائی کے بعد بین الاقوامی سطح پر بھی فوٹو گرافی کے میدان میں تبدیلیاں رونما ہوئیں جدید کیمروں جن میں خاص کر DSLRٹائپ کےکیمرے منظر عام پر آنا شروع ہو گئے تھے اسی کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں میں فوٹو گرافی کے شوق کا مزید شعور اُجاگر ہوا ،جس سے نوجوانوں نے اپنے اردگرد کے قدرتی ماحول کو جدید ٹیکنالوجی سے مزین کیمروں میں قید کرنا شروع کردیا ۔ حقیقی منظر بستی جیسا تاثر دینے والی تصاویر نے نوجوان کے اندرایک نیار حجان پیدا کیا۔ شبنم کی بوندوں سے لے کر سمندر کی مست موجوں کی روانی جیسے خوب صورت، حسین نظاروں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کا شوق تیزی سے پروان چڑھا اورپھرفوٹو گرافی کوایک انڈسٹری کا درجہ ملنے لگا۔ موجودہ دور جدید میں فوٹو گرافی کا شعبہ مزیدوسعت کی بلندیوں کو چھونے لگاہے، جس کا سہرا ہماری نسل نوکے سر جاتا ہے، اب پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں باقاعدہ فوٹو گرافی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ورکشاپ بھی منعقد کی جاتی،جن سے فوٹوگرافی کے شوقین نوجوان استفادہ کر تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا اور ماڈلنگ کے شعبے میں بھی بہت بہتری آتی جارہی اور نسل نو اس میں دل چسپی لے رہی ہے۔ اس رجحان کے پیش نظر اب ملک کے کئی اخبارات اور شہروں میں مختلف عنوانات پر مبنی فوٹوگرافی کے مقابلے بھی منعقد کیے جاتے اور تصویری نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ جن میں نسل نو بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ،ایسی صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لے کر وہ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ ساتھ کیریئر میںبھی ترقی کر سکتے ہیں۔

سیروسیاحت

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی شکل میں اک ایسا خوبصورت اور حسین و جمیل ملک اس خطہ ارض پر عطا کیا ہے۔ جس پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے ہر لب پر دعا ہے کہ ’’اس پاک وطن کو ہمیشہ سلامت رکھنا‘‘ ہمارے ملک میں اتنے خوبصورت مقامات اور مناظر ہیں، جن کا کوئی تصور نہیں کر سکتا اور ہر دل کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وطن عزیز کے قدرتی مناظر کا خود نظارہ کرے ،خاص کر ہماری نسل نو میں یہ اُمنگ عروج پر ہے کہ پاکستان کے خوبصورت اور حسین تفریحی مقامات کی سیر کریں اور وہاں کے ماحول سے لطف اندوز ہوں اور اُن علاقوں سے نت نئی معلومات حاصل کریں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی سیاحت کو فروغ دیں۔سیر و سیاحت کے حوالے سے ،جو جذبہ اور لگن ہمیں اپنے وطن عزیز کے نوجوانوں میں نظر آتا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تفریحی مقاصد کے ساتھ ساتھ سیرو سیاحت سے علمی سطح پر بھی کچھ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں، طالب علموں میں جستجو کا عنصر بھی نمایاں ہے ،وہ ملک دیگر حصوں میں جا کر تحقیق کا آغاز کرتے ہیں،تفریحی مقاما ت سے اُن رموز کو عیاں کرتے ہیں، جن کی تاریخ اُن میں پوشیدہ ہے اس سلسلے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے گروپ ان جگہوں پر جانا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے پسندیدہ مضامین کے لیےکچھ نیا مواد جمع کر سکیں ۔وہ اس سیر و سیاحت کو ایک ایڈوینچر کا نام دیتے ہیںمشاہدے میں آیا ہے کہ موجودہ نسل کا زیادہ تر رُخ شمالی علاقوں کی طرف زیادہ ہے۔ جہاں برف پوش وادیاں اور پہاڑوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جہاں خوبصورت آبشار گر رہے ہیں اور سیاح اُن پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنا مسکن بنا رہے ہوتے ہیں۔ ہماری نسل نو سیروسیاحت کے فروغ میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔ نوجوان وہاں جا کر سلائیڈینگ کرتے ، پولو کھیلتے اور ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ ہلا گلا بھی کرتے ہیں گرم گرم کھانے بھی بناتے ہیں اور کی وہاں کی روایتی طور طریقوں سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔

فن موسیقی

موسیقی کاشعبہ پاکستان میں اپنی اِک الگ پہچان و شناخت رکھتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو فن موسیقی سے ہمیشہ سے ہی لگاؤ رہا ہے،زمانے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے اس شوق میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اب ہمارے بیش تر نوجوان موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میوزک اسکول میں بھی داخلہ لیتے ہیں تاکہ س شعبے میں بھر پور مہارت حاصل کر سکیں۔ 1990ء کا دور نوجوان نسل کی اُمنگوں کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں جنون، وائٹل سنگر، اسٹنگز، آواز، جال، فیوژن جیسے نوجوانوں کے میوزیکل گروپ سامنے آئے جنہوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا، کیوں کہ ان کے پروگرامز تقریباً ساری دُنیا میں منعقد ہوتے تھے اور ان نوجوان فنکاروں کو مکمل پزیرائی حاصل ہوئی۔ جس سے ان کے اندر نیا جوش و ولولہ پیدا ہوتا گیا، اور اپنے ملک کے نام کو ہمیشہ روشن و رخشاں رکھا۔ نسل نو اپنی موسیقی کے شوق کے ذریعے ،اپنی ثقافت و تہذیب دوسرے ممالک تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ اب فن موسیقی کو بھی ایک انڈسٹری کا مقام حاصل ہو گیا ہے اور ہمارےملک کے بڑے شہروں میں باقاعدہ اسکول و کالج اور یونیورسٹی سطح پر تربیت سینٹرز قائم ہو رہے ہیں، جب کہ آرٹ سے وابستہ لوگوں نے ٹریننگ سینٹرز قائم کر رکھے ہیں جہاں نئی نسل نو کے فن کو نکھارا جاتا ہے اُن میں مقابلے کے رحجان کو بڑھایا جاتا ہے اس سلسلے میں پاکستانی میڈیا نے بھی اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر رہا ہے اور نئے ٹیلنٹ کو عوام کے سامنے لاکر اُن میں حقیقی فنکار کو تلاش کیا جا رہا ہے۔

ہماری نسل نو کسی خاص شعبے تک محدود نہیںرہنا چاہتی وہ فارغ اوقات میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنا چاہتی ہے اس سلسلے میں اداکاری، صدا کاری، مصوری، مجسمہ سازی اور دیگر فائن آرٹس سے متعلق شعبہ جات میں اپنے آپ کو منوانا چاہتی ہے۔ جب اُن کی ذات میں مستقل مزاجی اور ٹھہرائو کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اور کچھ سنجیدگی آجاتی ہے تو وہ پھر باقاعدہ اپنی زندگی کے لیےکوئی ایک شعبہ منتخب کرتی ہے۔ لیکن اُنہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے شوق کی تسکین کے لیے ہر وہ کام کرنا چاہتے ہیں، جس میں اُن کی دل چسپی ہو۔