منچھر جھیل

June 06, 2018

خالدمیمن

منچھر جھیل کراچی سےتقریباً 280کلومیٹر (175میل) کے فاصلے پر ضلع دادو کے تعلقہ جوہی کیرتھر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ جھیل کب وجود میں آئی، اس کے متعلق حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ جھیل موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، یعنی یہ قدیم ترین پتھر کے دور سے اسی جگہ پر موجود ہے۔ یہ دریائے سندھ سے قدرے بلندی پر واقع ہے۔ منچھر جھیل پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس میں پانی کا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔ اس لیے جب دریا میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے ،تو اس کا زائد پانی حفاظتی پشتے توڑ کر پورے علاقے میں پھیل جاتا ہے ،مگر جب دریا کی سیلابی کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو جھیل کا زائد پانی دریائے سندھ میں واپس چلاجاتا ہے اور منچھر جھیل اپنی اصل حالت میں واپس آجاتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر گزشتہ صدی کے دوران اسے دریائے سندھ کے ساتھ ملانے کے لیے ایک ’’اڑی‘‘ نامی نہر بنا دی گئی تھی، جس سے دریا کا سیلابی پانی منچھر جھیل میں محفوظ ہو جاتا ہے، یہ جھیل520مربع کلومیٹر کے وسیع عریض علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔لیکن تاریخ میں اہم مقام رکھنے والی یہ جھیل اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہے۔ستر کی دَہائی میں سندھ کے مختلف شہروں سے بڑی بڑی نکاسی آب کی لائنیں اور نہریں نکالی گئیں، جن کے ذریعے ان شہروں کا فضلہ، صنعتوں کا زہریلا پانی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والےزہریلےکیمیائی مواد سے بھرپور باقیات اس جھیل گرنے لگا۔اسی طرح دریائے سندھ کے آس پاس کی زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے وہاں سے نمکین یا کھارا پانی بھی اسی جھیل میں ڈالا جانے لگا،گو کہ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کا نمکین پانی بحیرہ عرب میں بہا ،دیا جائے ،لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور یہ پانی منچھر جھیل کو آلودہ اور زہریلا کرتا رہا۔سنہ 1990 میں کیے جانے والے ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتا چلا کہ جھیل کا پانی نمکین پانی، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہوچکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں کی آبی حیات اور پودے مر چکے ہیں یا ان کی تعداد میں خطرناک تک کمی آچکی ہے ،جب کہ اس پانی سے زراعت بھی ممکن نہیں رہی۔ جھیل میں قریباً دو سے زائد اقسام کی مچھلیاں جو صدیوں سے منچھر جھیل میں پائی جاتی ہیں بالکل ختم ہوگئیں ،اب جو مچھلیاں اس جھیل میں ہیں،ان میں سندھی حرگو، گندن، لوھر، سنگاڑا، پھندملی، موراکا اور کڑوا وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت منچھر جھیل مچھلیوں کی افزائش کا سب سے بڑا مرکز ہے۔اس جھیل سے لاکھوں من مچھلیاں ہر سال پکڑی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں کنول کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ کنول کے بیجوں کلیوں اور اس کی جڑوں کو بطور سبزی پکا کر کھاتے ہیں،جہاں ہری بھری گھاس اچھا موسم اور قدرتی جھیل ہو ،وہاں پرندوں کا دور دراز علاقوں سے آنا ایک فطری بات ہے۔ سردیوں کے موسم میں منچھر جھیل ہر قسم کے پرندوں سے بھر جاتی ہے ۔پرندے عارضی طور پر مختلف ممالک سے ہر سال یہاں آتے ہیں، اکثر یہاں سائبریا اور اس قسم کے ٹھنڈے ممالک سے پرندے منچھر جھیل میں آتے ہیں۔ اس جھیل میں آنے والے پرندوں کی متعدد اقسام ہوتی ہیں، مثلاً ہنس لاکو جانی، راج ہنس، آڑی (آری جل مرغی) نیگری ( نیل سر) کا نیرو (چونچ بزا) ڈگوش ( چھوٹی بطخ) کنگھا ( لنگور) چنچلوں ( چکیکلو بطخ) گنگ مرغیاں اور مختلف بطخیں وغیرہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ منچھر جھیل میں سندھی ہنس بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں یہ ہنس تین طرح کے ہوتے ہیںایک بھورے رنگ کے ہنس دوسرے سفید منہ والے اور تیسرے کلغی والے ہنس۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک نایاب نسل ہے، جو اس جھیل میں پائی جاتی ہے،لیکن جھیل کی آلودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا۔منچھر جھیل کو دیکھا جائے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی کوئی شہر آباد ہے۔اس جھیل کی خاص بات اور خوب صورتی یہاں آباد’’ موہانا قبیلہ ‘‘ہے ، حیران کن بات یہ ہے کہ قبیلہ کسی زمین پر نہیں بلکہ سمندر پر آباد ہے، جھیل پر تیرتی کشتیاں ہی اس کا مسکن ہیں،اس شہر میں ہزاروں کشتیوں پر سوار پورے کا پورا خاندان نسل در نسل سے رہ رہا ہے۔ موہانا قبیلے کے لوگ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر ہیں ،ان کاواحد ذریعۂ معاش مچھلیاں پکڑنا ہے،لیکن جھیل میں پھینکے جانے والے زہریلے کیمیائی مادے کی وجہ سے ان لوگوں کابھی کشتیوں میںرہنا محال ہو گیا ہے، گویا انہیں اپنے گھر ہی میں سکون کی سانس لینا میسر نہیں، نہ صرف جھیل کا پانی بلکہ اس کی ہر شے زہریلی ہوچکی ہے۔یہاں رہائش پزیر ماہی گیروں کا پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’’پہلے ہماری زندگی پُر سکون ، آرام دہ اور خو ش حال تھی، لیکن اب جھیل پر زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے، یہاں ہر قسم کی مچھلیاں دست یاب تھیں ، ہماری آمدنی بھی بہت اچھی تھی، جب شکار پر جایا کرتے تھے ،کئی کلو مچھلی پکڑتے تھے،لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اب خراب پانی کی وجہ سے مچھلیاں بھی مر رہی ہیں۔ بے شمار لوگ لکڑی سے بنی ان کشتیوں میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ کشتی کے اوپر بنائے گئے چھپر پر ان لوگوں کے کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ صاف نظر آتی ہیں۔ کھانا پکانے کے لیے کشتی کے کنارے پر مٹی کا چولہارکھا ہوتا ہے، جس میں آبی پودوں سے آگ جلائی جاتی ہے۔قبیلے کے لوگ گرمیوں میں چھپرے کے اوپر اور سردیوں میں کشتی کے اندر سوتے ہیں۔ ان کی شادیاں و دیگر تقریبات بھی کشتیوں پر ہی انجام پاتی ہیں،تقریبات کے لیے کشتیوں کو رنگین کپڑوں یا جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے، جو ان کی خو ب صورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں،لیکن اب غربت کے باعث لوگ اپنی کشتیوں کی مرمت تک نہیں کروا پاتے ،جس کے باعث کشتیاں خستہ حال ہوگئی ہیں۔ مجبوراًماہی گیروں کو اپنا آبائی مقام چھوڑ کر خشکی پر گھر بسانے پڑ رہے ہیں۔اب بہ مشکل ایک درجن کشتیاں ، جھیل پر تیر رہی ہیں۔موہانا قبیلے کے جو لوگ خشکی پر گھر بسا چکے ہیں، ان کی زندگیاں بھی آسان نہیں ہیں،بلکہ انہیں گھاس پھونس کے بنے جھونپڑے میں رہنا پڑتا، ہے، جہاں ضروریات زندگی کی دیگر چیزیں بھی میسر نہیں۔نہ صرف منچھر جھیل بلکہ اس پر قائم موہاناقبیلہ بھی اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ منچھر جھیل کو سیاحت کا مرکز بنایا جاسکتا ہے، یہاں کے عوام کا عرصۂ دراز سے مطالبہ ہے کہ اس جھیل پر ایک ڈیم بنایا جائے، تاکہ جو ہی تحصیل اور سہیونا کی لاکھوں ایکڑ زمین کاشت ہوسکے۔