ٹرمپ کا نیا نشانہ مہاجرین کے بچے

June 20, 2018

بالآخر امریکا کی خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ بھی بول پڑیں اور انہوں نے 18؍جون کو اپنے شوہر نامدار سے کچھ اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بچّوں کو والدین سے الگ کرنے کی پالیسی سے نفرت ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کر یں۔

مسئلہ یہ ہے کہ میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن یا مہاجر سرحد پار کرنے پر دھرلیے جاتے ہیں ۔جن مہاجرین کے ساتھ گرفتاری کے وقت بچّے بھی ہوتے ہیں تو ان بچّوںکو والدین سے جدا کر دیا جاتا ہے یعنی والدین اور بچّوں کو ایک ہی جگہ یا ایک ہی زندان میں نہیں رکھا جاتا۔

اب اس پالیسی کے خلاف نہ صرف میلانیا ٹرمپ بلکہ سابق امریکی خاتون اوّل لارا بش بھی بول رہی ہیں۔ انہوں نے میلانیا کی طرح دبے لفظوں میں بات نہیں کی بلکہ کھلے الفاظ میں اس متنازع پالیسی کی مذمت کی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پالیسی پر بہت فخر کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں دوٹوک اعلان کیا تھا کہ وہ مہاجرین کو بالکل برداشت نہیں کریں گے اور اس سلسلے میں انہوں نے ’’زیرو ٹالرینس‘‘ یا ’’صفر برداشت‘‘ کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ٹرمپ کا غیر متوقع طور پر صدر منتخب ہونا ان کے اسی طرح کے بیانات کا مرہون منت تھا جس میں انہوں نے امریکی قوم پرستی کو بڑھاوا دیتے ہوئے دیگر ممالک اور دیگر قومیتوں کے افراد کے خلاف باتیں کی تھیں۔ یاد رہے کہ صرف حالیہ مئی اور جون کے مہینوں میں تقریباً دو ہزار خاندانوں کو ان کے بچّوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جو بھی بالغ افراد سرحد عبور کرتے ہیں انہیں فوری طور پر گرفتار کر کے نہ صرف ان پر مقدمات قائم کر دیے جاتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں سیکڑوں بچّوں کو بھی حراست میں لے کر انہیں والدین سے الگ حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ غالباً اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو والدین کو ان کے کیے کی سزا دی جائے اور دوسری طرف اس طرح کی خبریں پھیلنے سے مزید مہاجرین سرحد عبور کرنے سے گریز کریں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پر شدید احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نازی جرمنی اور فاشزم کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ اس سے قبل امریکا میں کبھی اس طرح کی پالیسی پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔

خود ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ اس پالیسی پر نظرثانی صرف امریکی کانگریس کر سکتی ہے۔تاہم انسانی حقوق کے علم بردار کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اٹارنی جنرل نے جو پالیسی متعارف کرائی ہے اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے کانگریس کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب ایک سابق اور ایک موجودہ خاتون اوّل کے بیانات دینے سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اس پالیسی پر نظرثانی کی جائے گی۔ خاص طور پر سابق خاتون اوّل لارا بش کا یہ کہنا ہے کہ ان کا دل ٹوٹ گیا ہے اور وہ اس بات کے خلاف ہیں کہ بچّوں کو گوداموں میں ڈال دیا جائے اور صحرا میں ان کے لیے خیمے لگائے جائیں۔

اس سے قبل امریکا میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایسے واقعات دیکھنے میں آئے تھے جب ہوائی پر جاپانی حملے کے بعد امریکا نے اپنے ملک میں موجود جاپانی نسل کے لوگوں کو کپمپوں میں منتقل کر دیا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ لارا بش جو اب میکسیکو کے بچّوں کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں انہوں نے اپنے شوہر سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے 8سالہ دور میں ایسی آواز کبھی نہیں اٹھائی،جب بش نے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے جن کے نتیجے میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بے گھر،ہلاک و زخمی کیے گئے اور بچّے دربہ در ہو ئے۔ اس وقت سے اب تک افغانستان، عراق، شام اور یمن وغیرہ میں یا تو بہ راہ راست امریکی افواج نے یا پھر امریکی حمایت یافتہ جنگ جوئوں نے مردوں کے علاوہ لاکھوں عورتوں اور بچّوں کو نشانہ بنایا ہے۔ صرف عید کے دنوں میں یمن میں ہونے والی بمباری سے ہزاروں عورتیں اور بچّے متاثر ہوئے ہیں، مگر مذکورہ دونوں خواتین میں سے کسی نے بھی اس کی مذمت نہیں کی ہے۔

میکسیکو کے مہاجرین کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ یقیناً قابل مذمت ہے، مگر اس ظلم و ستم کی شدت اس سے بہت کم ہے جو امریکی افواج افغانستان، عراق، شام اور یمن وغیرہ میں کرتی رہی ہیں۔ ایک اور مثال لیبیا کی بھی ہے جہاںمعمرقذافی کا اقتدار ختم ہونےکے بعد بھانت بھا نت کے جنگ جو گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور امریکا نے ایک پرسکون اور پرامن ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل دیا ہے، مگر اس پر بھی مذکورہ خواتین خاموش ہیں۔

اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ پالیسی اس قانون پر مبنی ہے جو ڈیموکریٹ حکومت کے بنائے ہوئےتھے۔ ٹر مپ اس طرح کی گول مول باتیں کرنے میں ماہر ہیں اور اپنے کرتوتوں پر نظر ڈالنے کے بجائے دوسروں پر الزام لگانا ان کا معمول ہے۔ ٹرمپ نے یہ بالکل نہیں بتایا کہ ڈیموکریٹ حکومت کا کون سا قانون ہے جو اس پالیسی کی بنیاد بنا۔دراصل اس پالیسی کے پیچھے بڑا ہاتھ امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز کا ہے جن کے اقدامات نے خود ری پبلکن پارٹی کو تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ ری پبلکن ارکان کا کہنا ہے کہ جو والدین قانون توڑتے ہیں ان کے بچّوں کو والدین سے الگ کر دینا چاہیےکیوں کہ یہی قانون تو ڑ نے کی سزا ہے اور چوں کہ سرحد پار کرنے والے بھی مجرم ہیں لہذامجرموں کے پاس ان کے بچّوں کو نہیں رکھا جا سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی صدور نے بہت سے عالمی قوانین توڑے ہیں اور کوریا اور ہندچینی سے لے کر انڈونیشیا کے قتل عام تک اور جاپان پر ایٹم بم گرانے سے لے کر چلی میں جنرل پنوشے کی حمایت تک امریکا کے سر پر بہت سے خون ہیں۔ اب اگر انہیں جنگی جرائم کا مجرم قرار دے کر خود امریکی صدور کے بچّوں کو ان سے الگ کر کے حراستی مراکز میں رکھا جائے تو کیسا لگے گا؟

اب جو بچّے والدین سے الگ کیے جا رہے ہیں ان میں صرف بڑے بچّے نہیں ہیں بلکہ امریکی اہل کار شیر خو ا ر اور گھٹنوں گھٹنوں چلنے والے بچّوں کو بھی والدین سے چھین رہے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی معقول انتظامات بھی نہیں ہیں۔ دوسری جانب امریکی حکام نے ا علان کیا ہے کہ وہ ٹیکساس (Texas) کے صحرا میں خیمے لگائیں گے جہاں ان بچّوں کو رکھا جائے گا۔

ٹیکساس (Texas) وہ علاقہ ہے جہاں سارا سال گرمی رہتی ہے اور درجۂ حرارت مستقل طور پر 40درجے تک رہتا ہے۔اسی ضمن میں کچھ ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے بچّے پنجروں میں بند کیے جا رہے ہیں جس طرح جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تصاویر کا مقصد مزید مہاجرین کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ چوںکہ ری پبلکن پارٹی مذہبی ہونے کی دعوے دار بھی ہے اس لیے اس پا لیسی کی حمایت میں ایسے مذہبی حوالے دیے جا رہے ہیں جن میں حکومت وقت کی اطاعت کا کہا گیا ہے۔

اس ہفتے امریکی مقننہ کے ایوانِ زیریں میں ایک قانون پیش کیا جا رہا ہے جس کی رو سے اس پالیسی میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس نئے قانون کے تحت اس پالیسی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے تحت بچّوں کو والدین سے علیحدہ کیا جا رہا ہے۔اگر یہ نیا قانون منظور ہو جاتا ہے تو یہ ٹرمپ کی ناکامی اور مخالفین کی فتح ہو گی اور اس کے تحت ظالمانہ اقدامات کو روکا جا سکے گا۔ لیکن ٹرمپ بہ ضد ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا قانون پارلیمان نے منظور کر بھی لیا تو وہ اس پر دست خط نہیں کریں گے، چاہے اسے ری پبلکن پارٹی کی حمایت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

ٹرمپ کا پچھلاہفتہ خاصا مصروف گزراہے۔ ایک طر ف تو وہ مہاجرین اور ان کے بچّوں کے درپے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے چینی مصنوعات پر 25فی صد محصول عاید کر دیا ہے جس کی مجموعی مالیت 50ارب ڈالر تک ہو گی۔ ان محصولات سے سیکڑوں مصنوعات متاثر ہوں گی، مثلاً ہوائی جہاز کے ٹائر، ٹربائن اور برتن دھونے کی مشینیں وغیرہ۔

امریکی صدر ٹرمپ کی ان پالیسیوں نے امریکا کو دنیا میں تنہا کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ مزید ایسی حرکتیں کرتے رہے تو نہ صر ف روس، چین بلکہ خود ان کے روایتی اتحادی یعنی مغربی یورپ اور کینیڈا وغیرہ بھی ٹرمپ سے دور ہوتے جائیں گے۔ اب امریکا دنیا میں ایک خطرناک بھڑک باز مسخر ے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جودنیا کو تباہی کی طر ف دھکیل رہا ہے۔