پاناما پیپرز کا اجراء، نئی کھیپ سے موکلین پر خوف طاری

June 21, 2018

اسلام آباد(رپورٹ: عمر چیمہ) پاناما کی قانونی فرم موسیک فونسیکا سے افشاء دستاویزات کی تازہ کھیپ سے معلوم ہوتا ہے کہ پاناما پیپرز کے اجراء کے بعد اس کے موکلین پر کس طرح خوف اور گھبراہٹ طاری ہو گئی ہے۔ ان میں سے کئی ایک پاکستانی ہیں۔ جنہیں بیرون ممالک دولت چھپانے کے منصوبوں کو مزید کسی افشاء کے خدشے کے پیش نظر تبدیل کرنا پڑا ۔کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ جو نگراں وزیراعظم کے لئے پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد تھے۔ انہوں نے دو سوئس بینکوں میں کھاتے کھولنے کا منصوبہ ترک کر دیا۔ جب پاناما پیپرز کے ذریعہ ان کی دو بے نامی شیل کمپنیاں سامنے آئیں۔ لیکن ان کی ملکیت نامعلوم تھی۔ سابق اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک عبدالقیوم نے خود کو بے نامی کمپنی سے لاتعلق کیا۔ ان کے سوئس بینک اکائونٹس ملک قیوم اور ان کی اہلیہ کے دستخطوں سے ہے۔ تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی نے ان کے بیٹے عاصم اللہ درانی کو پاناما پیپرز کے اجراء کے چند ماہ بعد برطانیہ میں جائیداد کی ملک آف شور کمپنی تحفہ میں دی۔ دریں اثناء مشرق وسطیٰ میں پاکستانی بینکار سلیم شیخ مستقبل میں مزید کسی ’’لیک‘‘ کے ذریعہ پشیمانی اور ہراساں کئے جانے سے بچائو کے اقدامات کی لاء فرم سے وضاحت مانگ رہے ہیں۔ ان کی اس تشویش کا جواب دینے کے بجائے موسیک فونسیکا نے اپریل 2017ء میں برٹش ورجن آئی لینڈز میں کمپنیوں کے مالک پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز سمیت انہیں بھی نوٹس جاری کر دیئے۔ پاکستان ان 21ممالک میں ہے جنہیں اپریل 2017ء میں کاروبار کے لئے بی وی آئی نے ممنوع قرار دیا۔ شریف خاندان کی ملکیت نیلسن اور نیسکول نے 2014ء میں اپنا ایجنٹ تبدیل کیا۔ لہٰذا تازہ ’’لیک‘‘ میں اس سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ نئی حاصل کردہ دستاویزات میں نامی گرامی کھیلوں سے متعلق شخصیات کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں ارجنٹائن کے اسٹار فٹبالر لائنل میسی کا نام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ارجنٹائن کے صدر کے خاندان اور ایک سابق کویتی افسر پر ملک کے سوشل سیکورٹی سسٹم کو لوٹنے کا الزام ہے۔ اپریل 2016ء میں ایک کروڑ 15لاکھ پاناما پیپرز کے افشاء کے بعد دسمبر 2017ء تک تازہ لیکس 12لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے۔ دستاویزات میونخ کی ایک فرم کو ا فشاء کئے گئے جس نے انہیں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کے ساتھ شیئر کیا ہے اور ’’دی نیوز‘‘ آئی سی آئی جے کا پاکستان میں واحد پارٹنر ہے۔ موسیک فونسیکا نے رواں سال مارچ میں اپنی بندش کا اعلان کیا۔ نئی لیک سے معلوم ہوا اس برسرپیکار لاء فرم کو نتائج سے نمٹنے میں کتنی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنا ریکارڈ افشاء ہونے سے آگاہ ہونے کے دو ماہ بعد وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں سرگرم 28500کمپنیوں میں سے 70فیصد کے مالکان کی نشاندہی میں ناکام رہی۔ اسی طرح پاناما میں 10500میں سے بھی ایسی 75فیصد آف شور کمپنیاں شامل ہیں۔ مالی اداروں کے لئے اپنے موکل کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ایک مطلوبہ احتیاط ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایسی دو نامعلوم کمپنیوں کی قانونی طور پر ملک قیوم نے نمائندگی کی۔ جو چیمبر ویل فنانشیل اور فرن برج ریسورسز ہیں۔ دونوں کو سوئس بینک میں اکائونٹ کھولنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ان کی اہلیہ شریک دستخطی ہیں۔ مؤقف جاننے کے لئے جب رابطہ کیا گیا تو ملک قیوم نے کہا کہ فرن برج ان کی موکل رہی ہے اور وہ اس کے مالک کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہیں کر سکتے۔ اپنی اہلیہ کے شریک دستخطی ہونے کے حوالے سے ملک قیوم نے وضاحت کی چونکہ وہ سفر میں ساتھ تھیں اور ان کا عموماً یہ عمل رہا کہ ایسی منتقلی میں قابل اعتماد ’’بیک اپ‘‘ بروئے کار لایا جائے۔ نئی جاری دستاویزات میں دو خطوط شامل ہیں۔ جو پامانا پیپرز کے افشاء کے دوسرے روز 6؍اپریل 2016ء کو جاری ہوئے جو فرن برج کے ڈائریکٹرز نے جاری کئے کہ ملک قیوم کمپنی کے قانونی نمائندہ ہیں۔ فرن برج کے ساتھ ان کے تعلق کا ڈائریکٹرز کی جانب سے خط 27؍اگست 2012ء کو جاری ہوا۔ تاہم افشاء ریکارڈ میں ای میل ڈیٹا کے مطابق تینوں خطوط دستخطوں کے لئے 7؍اپریل کو بھیجے گئے اور11؍اپریل کو واپس ہوئے۔ اس کے علاوہ 14؍اپریل کی تاریخ کے ساتھ دستخط شدہ خط میں فرن برج کے شیئر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز نے کمپنی کے مجاز دستخط کنندہ کے طور پر انہیں ہٹائے جانے کی منظوری دی۔ اتفاق سے اس خط پر 13اپریل کو دستخط کئے گئے۔ ملک قیوم نے بھی تصدیق کی کہ وہ کمپنی کے قانونی نمائندہ نہیں رہتے۔ ماضی میں بی وی آئی میں قائم چیمبر ویل فنانشیل کے قانونی نمائندے کے طور پر دی نیوز نے کبھی ذکر کیا اور نہ ہی افشاء دستاویزات میں ایسی کوئی شہادت سامنے آئی۔ دونوں کمپنیوں کی دیکھ بھال وہی نام نہاد بورڈ آف ڈائریکٹرز کرتا رہا جسے سروس پرووائیڈرز نے مقرر کیا تھا۔ کرکٹ بورڈ کی سابق سربراہ کی پاناما میں قائم دونوں کمپنیاں نامعلوم ہی رہتیں اگر تازہ لیکس سامنے نہ ا ٓتیں۔ ٹیونڈش انجینئرنگ ایس اے اور جیفلیان انوسٹمنٹ ایس اے اس سے قبل افشاء دستاویزات کا حصہ ہیں لیکن ملکیت کو خفیہ رکھا گیا۔ جب ان کمپنیوں نے سوئس بینک میں اکائونٹ کھولنا چاہا تو بتایا گیا کہ مالکان میں سابق سربراہ کرکٹ بورڈ ، ان کی اہلیہ اور بیٹا شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے بینک اکائونٹ کھولنے سے متعلق اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔ کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پاناما لیکس کے بعد یہ بات راز نہیں رہے گی۔ تبصرے کے لئے رابطہ کرنے پر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ پاناما پیپرز کے اجراء کی وجہ سے ماں (ثمینہ درانی) سے بیٹے (عاصم اللہ درانی) کو کمپنی کی منتقلی میں عجلت کی گئی۔ مارچ 2016ء میں جب ثمنیہ کی بیٹی تہمینہ درانی (شہاز شریف کی اہلیہ سے) ثمینہ درانی کے محل و قوع کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ ارمانی ریور کمپنی اسد کو تحفے میں دی گئی جو برطانیہ میں جائیداد کے مالک ہیں۔ جس کی تخمینی لاگت 10لاکھ پائونڈ اسٹرلنگ بتائی گئی۔ جس کا ذریعہ مرحوم والد شاکر اللہ درانی کی جانب سے بچت کو بتایا گیا۔ شاکر اللہ درانی اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر رہے۔ ثمینہ درانی کی دو دیگر آف شور کمپنیاں اسٹار پریسیشن اور رین بو ہیں گوکہ موسیک فونسیکا نے رواں سال مارچ میں اپنی بندش کا اعلان کر دیا تھا اس نے روا ںسال اپریل سے پاکستان میں اپنے رجسٹرڈ موکلین کو چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ پاکستان کے علاوہ جن 20دیر ممالک کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے ’’ہائی رسک‘‘ قرار دیا گیا ان میں افغانستان، بیلا روس، بوسنیا، وسطی افریقی جمہوریہ، کیوبا، کانگو، اریٹیریا، ایران، عراق، لبنان، لیبیا، شمالی کوریا، سربیا، سیرالیون، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، شام ، یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔