کھودا پہاڑ نکلا چوہا

June 23, 2018

عفیفہ عمران

فرحان کو جاسوسی کرنے کا بے حد شوق تھا، وہ اپنے آپ کو کسی جاسوسی فلموں کا ہیرو سمجھتا تھا۔ اس کے گھر والے اس کی اس عادت سے بہت پریشان تھے۔

’’اگر اسی طرح فرحان پر جاسوسی کا بھوت سوار رہا، تو کسی دن یہ ہم سب کے لیے کوئی بڑی مصیبت نہ کھڑی کردے۔ اس کا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا، آخر اس کا ہوگا کیا“ فرحان کی امی نے فکرمند ہوتے ہوئے اس کے ابو سے کہا۔

’’ہم تو اسے سمجھا سمجھا کرتھک گئے ہیں، لیکن اس کے کانوں پر جیسے جوں ہی نہیں رینگتی۔ آئے دن محلے سے شکایتیں آتی رہتیں ہیں۔ بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اسے بورڈنگ میں داخل کرا دوں گا، وہاں پابندیوں میں رہے گا تو جاسوسی کاشوق ختم ہوجائے گا‘‘۔ ابو غصے سے کہتے ہوئے چلے گئے۔

بالآخر فرحان کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں صبح کے ناشتے کے لیے رات کو ہی ہر بچے کا بن (ڈبل روٹی )منگوالی جاتی تھی، کیوں کہ بیکری صبح دیر سے کھلتی تھی۔ دو چار دن سے بورڈنگ ہاؤس میں عجیب بات ہو رہی تھی، کہ روزانہ کسی نہ کسی بچے کا بن غائب ہوجاتا۔ جب فرحان کو یہ معلوم ہوا تو اس کی جاسوسی کی حس تیزی سے کام کرنے لگی، اس نے معاملے کی طے میں جاکر چور کا پتا لگانے کا عزم کیا۔

رات کو جب سب سوگئے تو وہ اپنے بستر پر بیٹھا کمرے میں چاروں طرف نظریں دواڑنے لگا۔ اچانک اس نے ایک عجیب آہٹ محسوس کی اور بے اختیار سر تک چادر تان کر لیٹ گیا اور کانپنے لگا۔ رات بھر وہ خوف سے کپکپاتا رہا۔ صبح اسکول انتظامیہ سراسیمگی کےعالم میں تھی، کیوں کہ ایک اور بن چوری ہوگیا تھا۔

کسی کو چور کے بارے میں کچھ معلوم ہو یا نہ ہو مگر فرحان کو معلوم تھا کہ چور کون ہے۔ اس نے پاس کھڑے ایک بچے سے کہا، ’’مجھے معلوم ہے کہ چور کون ہے؟‘‘

’’کون!“، بچے نے حیرانگی سے پوچھا

’’جن …نن!‘‘ اس نے نون پر زور دے کر کہا

’’جن…!، کیا مطلب؟‘‘ وہ بچہ مزید حیران ہوگیا۔

فرحان نے اپنا چہرہ خوفناک بناتے ہوئے کہا ”ہاں حسن‘‘،

مگر حسن بجائے فرحان سے متاثر ہوتا، اس کا مذاق اڑانے لگا۔ اگلی رات جب سب سوگئے، تو وہ پھر چور کا پتا لگانے کے لیے جاسوسی میں لگ گیا۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ، اچانک اسے اپنے قریب کچھ آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے ایک جھٹکے سے آہٹ کی جانب دیکھا تو اسے ایک اور بن خود بخود کھسکتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔ اتنا بڑا گول بن زمین پر کھسک نہیں رہا تھا، بلکہ تھوڑا سا اوپر ہوا میں اڑ رہا تھا۔ وہ تھر تھر کانپنے لگے اور پھر اس نے ذرا غور سے دیکھا تو اسے بن کے نیچے ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی۔ اس نے کاپنتے ہوئے تھوڑا مزید جھک کر غور سے دیکھا تو اس کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ اس کی ہنسی کی آواز سن کر باقی بچے بھی گھبرا کر اٹھ گئے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ ایک بچے نے پوچھا،

’’ارے کیوں ہنس رہے ہو اتنی رات کو؟‘‘ ایک اور بچے نے کہا۔

فرحان سب باتوں سے بے نیاز، بس اس بن کو دیکھے جا رہا تھا، جواب کافی دور نکل چکا تھا، باقی بچوں کی نگاہیں بھی اس کی نگاہوں کی سیدھ میں گئیں۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ اتنے بڑے بن کے نیچے چھوٹی سی چوہیا ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی پستہ قد مزدور فوم کا گدا اٹھائے چلاجارہا ہو۔ اچھا تو یہ ہے چور، ’’دھت تیرے کی‘‘۔ سب بچوں کے منہ سے بے اختیار نکلا اور کمرا قہقہوں سے گونج اٹھا۔ چوہیا ان کے قہقہوں سے خوفزدہ ہوکربن چھوڑ کر سرپٹ بھاگ گئی۔ فرحان نے بے اختیار کہا، یہ وہی مثال ہوگئی، ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘۔