غیرمعمولی انتخابات

June 25, 2018

ملک میں عام انتخابات منعقد ہونے میں صرف ایک ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے، اقتدار کے حصول کی اس انتخابی جنگ کیلئے گھمسان کا رن پڑنے والا ہے، کاونٹ ڈاون شروع ہو چکا اس لئے ہر گزرتے دن کیساتھ متحارب سیاسی جماعتوں ،امیدواروں اور حمایتیوں کے درمیان اعصاب شکن مقابلے کی تیاریاں بتدریج زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ پچیس جولائی کو منعقد ہونیوالا یہ انتخابی معرکہ پاکستان کی تاریخ میں متعدد وجوہات کے باعث غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے، تین بار وزیر اعظم منتخب ہونیوالے سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے انتخابی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں، ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنی زندگی میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں لیکن احتساب عدالت میں جاری نیب ریفرنسز کی سماعت آخری مرحلے پرپہنچ چکی ہے جس میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کا فیصلہ عام انتخابات سے قبل سنائے جانے کا قومی امکان ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی تشویشناک صحت بھی مشکلات کے ایک ساتھ شروع ہونے کے مقولے کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کٹھن آزمائش کے جس مرحلے سے گزر رہی ہے اسکے منطقی انجام کا دارو مدار عام انتخابات کے نتائج پر ہی ہے۔ تیس دن بعد ہونے والا انتخابی دنگل کپتان کیلئے بھی اب یا کبھی نہیں کے مترادف ہے جسے جیتنے کیلئے وہ نہ صرف تمام توانائیاں صرف کر چکے ہیں بلکہ لوٹوں کو الیکٹیبلز کے نام سے گلے لگا کر اپنے اصول بھی پس پشت ڈال چکے ہیں۔ پیرانہ سالی میں دو دہائیوں سے زائد عرصہ کی سیاسی جدوجہد کا پھل پانے کی خاطر وہ محبت اور جنگ کی طرح سیاست میں بھی سب جائز قرار دے چکے ہیں اسلئے یہ انتخابات عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کیلئے تبدیلی اور نئے پاکستان کی آخری امید ہیں۔ ملک میں پہلی جمہوری حکومت کی مدت پوری ہونے کا اعزاز حاصل کرنے اورپاکستان کے چاروں صوبوں میں وجود رکھنے والی پاکستان پیپلزپارٹی صرف سندھ تک سکڑ چکی، زوال اس انتہا کو پہنچ چکا کہ پارٹی ٹکٹ دینے کی بارے میں ایسے ایسے لطیفے گھڑے جا چکے کہ ذوالفقاربھٹو اور بے نظیر بھٹو کی وراثت کے امین بھی شرما جائیں۔ ستم ظریفی ایسی کہ زندہ ہے بھٹوکے نعرے سے جیالوں کے خون میں طلاطم برپا کرنے والی پیپلزپارٹی کے چیئرمین اپنی زندگی کے پہلے انتخابی معرکےمیں بلاول زرداری کے نام سے حصہ لینے پر مجبور جبکہ شہید بی بی کی بیٹی آصفہ بھٹوبھی پارلیمانی سیاست کی پہلی لڑائی اس ماحول میں لڑنے کیلئے پر تول رہی ہیں جب جیالوں کا خون بھی ٹھنڈا پڑ چکا۔ اس انتخابات کے نتائج وفاق کو متحد رکھنے کی ضمانت سمجھی جانے والے پیپلز پارٹی اور شہید بی بی کے بچوں کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کیلئے بہت اہم ہو چکے، پچیس جولائی کا دن ان کیلئے بھی یوم محشر جن کے ایک اشارے پر پاکستان کا اقتصادی مرکزویران ہوجاتا تھا،جن کی ایک کال پر کراچی میں ہو کا عالم طاری ہو جاتا اور جو کراچی اور شہری سندھ کا خود کو اکلوتا وارث قرار دیتے تھے لیکن آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مہاجروں کے حقوق کے حقیقی نگہبان ہونے کے دعویداروں کی رسہ کشی اور نامیوں کے نشاں مٹنے پرمہر تصدیق ثبت کرنے کے حوالے سے بھی عام انتخابات کے نتائج نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ جس سندھ میں پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اور صرف چند قوم پرست جماعتوں کا طوطی بولتا تھا آج اس پر حق جتانے کیلئے اے این پی کے ساتھ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن بھی پیش پیش ہو چکے اس لئے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات اس پہلو سے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ سال دو ہزار دو کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے اور بلوچستان اور مرکز سمیت دیگر حصوں میں اقتدار میں حصہ دار بننے والی جے یوآئی ف اور جماعت اسلامی سمیت اہم مذہبی جماعتیں ایک بار پھر متحدہ ممجلس عمل کے پلیٹ فارم پر اکھٹی ہو چکیں۔ کل تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی اتحادی رہنے اور حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے والی جماعت اسلامی اب ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انہی دوستوں کے مد مقابل آچکی اسلئے عام انتخابات کے نتائج اس حوالے سے بھی بہت اہم ہو چکے کہ کیا مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے بائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹ بینک میں بڑی نقب لگانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ پانچ سال تک اپوزیشن کا حصہ ہونے کے باوجود مرکز میں جمہوری حکومت کی غیر مشروط حمایت کرنے اور ہر غیر جمہوری اقدام کی مخالفت کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی کیلئے بھی یہ انتخابات ایک ریفرنڈم سے کم نہیں ہیں، خیبر پختونخوا کے عوام کی حقیقی خیر خواہ اے این پی ہےیا آفتاب شیر پاو کی قومی وطن پارٹی، ایم ایم اے، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ ن یا تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف یہ فیصلہ بھی پچیس جولائی کو ہی ہو گا۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں جو کھیل کھیلا گیا اس کے بعد یہ سوال بہت اہم ہو چکا کہ عام انتخابات میں حق حکمرانی کا فیصلہ کیا بلوچستان کے عوام ہی کریں گے یا وہی قوتیں جن کے ڈر سے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی شناخت سمجھے جانے والے سینیٹر یعقوب ناصر جیسے رہنما بھی پارٹی قیادت سے اجازت طلب کر رہے ہیں کہ انہیں شیر کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ یہ عام انتخابات ماضی کا قصہ بننے والے سیاست دانوں اور ان کی جماعت کی شناخت ختم کرنے کیلئے بھی اہم جو پرویز مشرف کی آمریت کے سہارے اقتدار کے مزے لیتے رہے،آج حالت یہ ہو چکی کہ چوتھا امیدوار تک دستیاب نہیں اسلئے ابھی تک مشورے دے رہے ہیں کہ انتخابات ملتوی کردیئے جائیں۔ گزشتہ کچھ عرصے اور ضمنی انتخابات میں اسلام اور ختم نبوت کے نام پر بلخصوص پنجاب میں سامنے آنے والی کٹر مذہبی جماعتوں کی نظریں بھی عام انتخابات پر لگی ہوئی ہیں، الیکشن ایکٹ میں متنازع ترمیم کو جواز بنا کر حکومتی پہیہ جام کرنے اور مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کو بلیک میل کرنیوالے ووٹوں کی صورت میں کس حد تک عوام کی حمایت حاصل کرنے اور بڑی جماعتوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اس سوال کا جواب بھی عام انتخابات کے نتائج میں ہی مضمر ہے۔ 25 جولائی کا دن ان لوٹوں کیلئے بھی یوم حساب جو ا س بار الیکٹیبلز کے کے نام پرخودکو چھپانے کی کوششوں میں ہیں، جو ہرڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے میں مشاق،جو ہر چڑھتے سورج کے پجاری ،جو صرف چوری کھانے والے مٹھو اور جو ہمیشہ ہانکے جانے کیلئے تیار، مختصر عرصے میں انتہائی متحرک سوشل میڈیا کی موجودگی میں عام انتخابات کا معرکہ مزید دلچسپ ہو چکا، پارٹی امیدواروں سے لے کر قیادت تک کو انگلیوں کی جنبش سے براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے والے کارکنان کو اپنے ہر عمل سے مطمئن کرنے،انہیں دلائل سے قائل کرنے جبکہ سوشل میڈیا پرمخالفین کی طرف سے نازیبا کلمات سمیت ہر قسم کی ہرزہ رسائی کے ماحول نے بھی آئندہ انتخابات کو ماضی سے بلکل مختلف بنا دیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار آبادی کا 51 فیصد یعنی 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز میں ڈھل چکا۔ ان میں 4 کروڑ 60 لاکھ وہ نوجوان شامل جن کی اکثریت نہ صرف سوشل میڈیا کو استعمال کرتی ہے بلکہ وہ پروپیگنڈا کے ذریعے عام انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 18 سے 25 سال کی عمر کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 74 لاکھ 40 ہزار جبکہ 26 سے 35 سال کی عمر کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 89 لاکھ 90 ہزار ہے اس طرح اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کے حق رائے دہی کے استعمال اور ان کی طرف سے اپنی جماعت کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے باعث بھی جولائی کے عام انتخابات غیرمعمولی اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ عام انتخابات اس حوالے سے بھی منفرد ہو چکے ہیں کیونکہ پہلی بار مسلح افواج کے جوانوں کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر بھی تعینات کیا جا رہا ہے ،اس فیصلے کے مضمرات کا تفصیلی ذکرآئندہ کسی کالم میں کروں گا۔ ایک طرف پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں اور دوسری طرف الیکشن ایکٹ 2017 اور رولز میں ترامیم کے ذریعے ملکی تاریخ کے طاقتور ترین الیکشن کمیشن کی نگرانی بھی عام انتخابات کو جداگانہ حیثیت عطا کر رہی ہے۔ ان انتخابات کے نتائج یہ بھی ثابت کرینگے کہ ووٹ کو عزت ملتی ہے یا تاریخ کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام حقائق کی روشنی میں 25جولائی کے انتخابات تمام فریقین کیلئے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اس لئےان تاریخ ساز انتخابات کے آزاد غیر جانب دار اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانا ناگزیر ہے کیونکہ 25 جولائی کوعوام کسی انتخابی نشان پر نہیں بلکہ پاکستان اور جمہوریت کے مستقبل پرمہر لگائیں گے۔