سچ کا سناٹا۔ کرپشن کا بازار

November 07, 2012

ایک سکوت کا عالم ہے ۔ ھو کا ماحول ہے۔ ایمان نحیف، اخلاقی قدریں ناپید۔ رواداری، اخوت، بھائی چارہ مفقود۔معاشرت ،علم، تمدن ،فضیلت مبہوت۔ وطنِ عزیز حالت ِنزاع میں ہے۔نظریہ پاکستان گہری نیند سو رہا ہے ۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا
پچھواڑے شورو غوغا ہے۔ سیاسی فاشزم، مذہبی اور لادینی انتہا پسندی ،لسانیت ، فرقہ واریت ،لاقانونیت ، ڈاکہ، قتل و غارت ، بھتہ خوری، کمیشن ، ٹیکس بجلی گیس چوری اور سب سے بڑھ کرجھوٹ۔ وائے بدنصیبی کرپشن کا پاکستان جاگ رہا ہے ۔توانااورہٹاکٹا۔ ساری اخلاقی، سماجی ، معاشی اقدار پر بھاری۔جوقواعدوضوابط کتاب اللہ اورسنت ِرسولنے مقرر کیے، جن اصولوں اور ضابطوں سے علامہ اقبال اور قائداعظم نے رہنمائی لی اور اُمت کی رہنمائی فرمائی آج اُنکے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں، بنیادیں اُکھاڑی جا رہی ہیں، اللہ اور اس کے رسول سے عملاً بغاوت کا اعلان ہو چکا ہے ۔برادرم سعید اظہر بغلیں بجاتے پھرتے ہیں کہ دائیں بازو کے قلم کار نے دائیں بازو کے چند لکھاریوں کوہی آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔
بھولے بادشاہ کہاں کا دایاں بازو اور کدھر گیا بائیں بازو۔بازو تو کٹ چکے ۔پچھلی 3 دہائیوں سے فقط مقابلہ حسن ہے دولت کا، دروغ گوئی کا، لوٹنے اور بربادی کا۔خاکسار تو فقط ایسے لکھاریوں کو تجارت کا حصہ بننے سے روکنے کی ناکام کوشش کر رہاہے ۔جہالت اور حماقت سے باز رکھنے کی ایک سعی لاحاصل ۔ عرض صرف اتنی، کہ حضور جب اللہ نے عزت کی روٹی قلم میں لکھ دی ہے تو چند خصلتوں اور اپنی نمودونمائش کی خاطر قوم اور ملک کو ارزاں نرخوں پرفروخت کرنے والے تاجروں کے معاون خصوصی کیوں بن چکے ہو؟ حال بُرا ہے۔ نشاندہی کرو تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔صد افسوس تاجروں کی کان میں نمک ہونے سے غلاموں کے تِلاموں کو محفوظ رکھنا نا ممکن ۔ یہ سارے نمک ہو چکے۔ کیا یہ مقام عبرت نہیں کہ ملک و قوم کی لٹیا ڈوبنے کو ہے اور یہ دانش مند اپنے احوال اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے اللہ کی دی ہوئی صلاحیت کو اللہ ہی کی مخلوق کو تباہ کرنے پر صرف کر رہے ہیں؟۔ کرپشن اور جھوٹ کی ترویج و اشاعت میں جُت چکے ہیں۔حضور آپ حضرات اپنی پارٹیوں کی غلاظت اور گندگی کو چھوڑ کر اپنا ”جھاڑو اور ٹوکرا“ سر پر رکھ کر عمران خان اور غیر ضروری احباب کے گھروں کی صفائی بارے کیوں فکرمند اور آرزومند نظر آرہے ہیں ؟طمع دنیا نے آپ کو پستیوں میں تو دھکیلا ہی تھا کیاعزتِ نفس سے بھی محروم ہو چکے؟ اگرچہ ایسے لکھاریوں کے احوال و اعمال کو مشیت ِایزدی سمجھا جائے لیکن اتمامِ حجت ضروری ۔ ہے جو اسکے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے۔اے مادرِوطن تیرے پرایسابُرا وقت آن پڑا ہے۔ تنگی، بھوک ، افلاس، ننگ اور اوپر سے گدھوں کا منڈلانا۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ تو اُٹھ چکاملک چند ہی لمحوں میں معاشی دیوالیے پن کا شکار ہوا چاہتا ہے سارے راستے مسدودہونے کو ہیں۔
چناں قحط سالے شُد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
آفرین ہے ایسے قومی رہنماؤں پر اس قحط سالی میں بھی کرپشن کا باب نہیں بھولے اس تنگی میں بھی ایسے ظالموں کے لیے کاروباری مواقع موجود ۔ایک طرف سچائی روبہ زوال دوسری طرف حرص اور طمع کے نئے ریکارڈ۔ پاکستان کے لوگو! سنو سیاستدان،عالمِ دین ، صحافی ،دانشور تاجر بن چکے۔وائے برحال سوداگرسیاستدان،عالم اور دانشورکے روپ میں۔جہاں ہمارے اہلِ اقتدار اورہماری اشرافیہ کے قبائل غول در غول کرپشن اور جھوٹ کی بھینٹ چڑھ گئے وہاں حرص و طمع نے نئی اقدار کو جنم دیا، شرافت کمزوری قرار پائی اور دیانتداری حماقت ٹھہری۔ وارداتئے اور سکہ بند جرائم پیشہ لوگ معاشرے میں وقعت ، عزت وتکریم کے منصب پر فائز ہو گئے ۔ ڈاکو اور چوروں نے رفعتیں اور خلعتیں پائیں۔ گرہن کی علامات پوری ہوتے نظر آرہی ہیں اور قوموں کے صفحہ ہستی سے مٹنے کے اعلامیئے بھی ایسے حالات کا منطقی انجام ہے۔کیسی ستم ظریفی آج ملکی سیاست میں دوہی رہنما اصول سامنے ہیں ۔پہلا سیاسی جنونیت اور دوسراجھوٹ اور کرپشن ۔ دونوں شعبے ایک دوسرے میں باہم پیوست ، ایک دوسرے کو توانا رکھتے ہوئے باہمی تقویت کا باعث ۔
دور مت جائیے ایک سروے اپنے محلے ، گاؤ ں یا شہر میں مرتب فرمائیں پچھلی3 دہائیوں میں سیا سی منظر نامے پہ نمودار ہونے والے سیاستدانوں کی سیاست میں آ نے سے پہلے کیا اوقات تھی اور آج انکا معیارِزندگی ساتویں آسمان کوکیسے چھو رہا ہے ؟ ان کے اثاثے ،سفری سہولیات، اندرون و بیرونِ ملک جائیدادیں ، بچوں کے سکول و کالج کے معیار، مال و دولت ، صنعت و حرفت کے ادارے ان کے اپنے اور والدین کے کیا تھے اورآج یہ بمعہ اہل وعیال کہاں کھڑے ہیں ۔کس کُوہلو میں اپنی غریب عوام کا تیل کشید کیا جو آپ کے آنگن میں کنواں بن کر پھوٹ پڑا۔قائداعظم کے پاکستان میں نظریاتی سیاست قائداعظم کی تصویر والے نوٹ کی بھینٹ چڑھ گئی اور اصولِ سیاست کے نئے عمرانی اصول وضع ہوئے ۔اندرونِ ملک بیرونِ ملک پھیلی جائیدادیں اور بنک بیلنس کی موجودگی کسی احساس ِندامت یاہزیمت کا باعث نہ بن پائی بلکہ وجہ شہرت ٹھہری ۔حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔قومی یکجہتی ، یگانگت ،سچ، دیانت، رواداری، بھائی چارہ جس کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا اسکی تعبیر انتشار، افراتفری، نفسانفسی، ظلم، بربریت، لاقانونیت، جھوٹ، کرپشن، چوری، ڈاکہ کی صورت میں ہمارا مقدر ٹھہری۔بے غیرتی کی انتہاکہ ملکی وسائل کے بل بوتے پر کاروبار کرنا باپ دادا کاحق ٹھہرا اور حکمرانی کے زور پر تجارت کرنااولاد کی کاروباری صلاحیتوں کا سکہ قرار پایا۔
پیسے سے سیاست اور پھر سیاست سے پیسے کا نہ ختم ہونے والا لامتناہی کھیل ملکی سیاست کو گھن کی طرح کھا چکا۔ اس کے خلاف شوروغوغاکریں یہ آپ کی ہڈیوں کا قیمہ بنا دیں گے عمران خان سے اختلاف اور ہے ہی کیا؟70کی دہائی تک ہمارے انتخابات چند ہزارروپے کی مار اوراگر کسی نے پیسہ لگانے میں نام روشن کرنا ہوتا تو ایک دو لاکھ روپیہ اور ایک دو گاڑیوں کے گردونواح میں ۔ یہ تھا زادِسیاست حلقہ کی جادہ و منزل کے لیے ۔1985 کے انتخابات کی ہر واردات موجودہ پریشانی و پشیمانی کا ساماں میسر کر گئی لیکن سب سے قبیح گھاؤ پیسے کی ببانگِ دُہل ،بے شرمی کے ساتھ آمد۔پاکستانی سیاست کو نیانمونہ اور نقشہ دے گئی۔میں پاکستان آیا ہوا تھا اور میرے زندہ وجاویداں (گور پیا کوئی ہور) بھائی فاروق گیلانی کی معیت میں انتخابی سرگرمیوں کا ایک سرسری جائزہ لینے کے لیے اندرونِ لاہور کی گلیوں اور بازاروں میں انتخابی گہماگہمی کودیکھتے پھر رہے تھے پہلی دفعہ رنگین فلمی سٹائل انتخابی مہم دیکھنے کو ملی ۔ بھائی جان فاروق گیلانی نے بتایا کہ جرنیلوں کاایک بغل بچہ پیسے کے بل بوتے پر سیاست میں داخل ہوا چاہتا ہے اور لگتاہے الیکشن خریدلے گا ۔ گردونواح بھی یہی گواہی دے رہے تھے ۔اب کے بعد سیاست جاگیرداروں اور نوکر شاہی کے تسلط سے نکل کر پیسہ کے قبضہ میں آیا ہی چاہتی تھی دایاں بازو، بایاں بازوکا زمانہ لدنے کو تھا پیسے کی چاندنی نے چکاچوند کرنا تھا ۔ سمگلر، چور ، لٹیرے ، بھتہ خورعزیزِجہاں کے مرتبے پر فائز ہونے کو تھے۔
بلاشک وشبہ روپے پیسے کا جو بیج 1985کے غیرجماعتی انتخابات میں بویا گیا آج اسکی گھنی فصل بصورتِ کرپشن کاٹنے کو ملی ہے ۔ 1985کے اخبارات کھولیں تو اس بات کا تعین بلا دیکھے ہو جائے گا کہ الیکشن کو دولت نے کس طرح اپاہج کیا ۔1988 میں اقتدارمحترمہ بے نظیر کے ہاتھ میںآ یاتو زرداری صاحب کا مشہور فقرہ اقتدار کی غلام گردشوں سے گلی کوچوں بازاروں میں کہاوت کی صورت پہنچاکہ بی بی اگر نوازشریف صاحب کو شکست دینی ہے تو مال ودولت کے انبار ڈھونڈنے ہوں گے ۔یوں لوٹ مار10 پرسنٹ سے سنٹ پرسنٹ کے درجے کو پہنچی ایک ایک واردات کورقم کرنا پڑے تو صفحات کے صفحات بھر جائیں۔انتخابی سیاست دولت کے نرغے میں آ گئی ۔ اس نے ہماری سیاست پہ کیا رنگ جمایا اگلے 24 سالوں کی بیتی۔ دُکھ اور تکلیف کی انمٹ کہانی ۔
آج اصغر خاں کیس سے لے کرNRO تک،حدیبیہ پیپرز مِل کی منی لاڈرنگ سے سوئس اکاؤنٹس کی منی لاڈرنگ تک، پارک لین کی جائیداد سے سرے فرانس محلات تک ۔لوٹ مار، چوری، ڈاکہ کی ایک داستانِ الم۔پلیز خان صاحب میاں صاحب کا ووٹ بینک مت اُجاڑیں ۔ باری کے اس کھیل کو خراب نہ کریں۔ ہماری باری ‘ تمہاری باری ۔ باری ‘ باری کا تقدس برقرار رکھنا ضروری۔ حضور کرپشن ، لوٹ مار نے ہمارے قائدین ، اکابرین ، لکھاری ، حواری ، شکاری کو کانا کر دیا۔ اغیار بھی ایسوں کا بازو مروڑ سکتے ہیں اور طالع آزما بھی۔ اگرخزانے کی رکھوالی کرتے ہو تو پاکستان ڈوبتا ہے اور پاکستان کی حفاظت کرتے ہو تو خزانہ جاتا ہے انشاء اللہ پاکستان بچے گا۔انشاء اللہ۔
برادرم عرفان صدیقی اپنی فقہ کے مطابق بالکل سچ فرما رہے ہیں ان کی الجھن قابلِ فہم۔ تحریک انصاف کی معاشی پالیسی PPPاور ن لیگ کی پچھلے 25 سال کی معاشی وارداتوں کے سامنے بے سروپا۔فضول اس پالیسی میں جاتی عمرہ اور ماڈل ٹاؤن کے گردونواح میں ہزاروں بلین سکہ رائج الوقت پر مبنی کسی منصوبہ کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی۔کیا ہمارے ہاں انسانوں کے شکار کا پیشہ ترک ہو سکتا ہے ۔ عاجزی کے چلمن میں چھپی عیاری بھی عیاں ہوگی؟
قوم کے محبوب حکمرانوں اور ان کے لواحقین سے میری عاجزانہ گزارش ہے اپنی عوام کو معاف کر دیں۔ فخرو بھائی آنے والے انتخابات میں اگر مفلوک الحال عوام کو ارب پتی سیاستدانوں کے چنگل سے نہ چھڑواسکے تو قوم معاف نہیں کرے گی۔ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق تضیع اوقات ایک مزاحیہ پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں۔ فخرو بھائی حرام کے پیسے پر انتخابات کی نہ تو کوئی ساکھ ہو گی اور نہ مطلوبہ نتائج۔ نتیجہ وہی مخدوش تاریک مستقبل۔چوری ،ڈاکہ ، بھتہ اور تاوان سے کمائی دولت سے ان لوگوں کو انتخابات خریدنے کا کوئی حق نہیں، یہ تو عدلیہ کے اختیارات بھی محدود کرنا چاہتے ہیں۔ قابل احترام چیف جسٹس کے لئے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کرپشن کا بے قابو عفریت دندناتاپھرتا ہے۔ حضور ملک بچانا ہے تو پیسے والوں کو سیاست خریدنے کے حق سے محروم کرنا ہو گا وگرنہ عوام الناس کی آہ و بکا کرپشن کے شوروغوغا میں گم ہی رہے گی پاکستان ان بدکرداروں کے باپ کی جاگیر نہیں کہ ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے ۔ PTI کے یوتھ کنونشن نے آس اوراُمید کو نئی جلادی ہے ۔ نوجوانوں کی کھیپ ان لوگوں سے ٹکر لینے کے لئے تڑپ رہی ہے۔سانپوں کے سر کچلنے ہوں گے اور انڈے بھی توڑنے ہوں گے۔ان کے حواری، لکھاری شکاری ان انڈوں سے نکلتے ہیں۔ کیا آنے والے الیکشن کو اربوں روپے لوٹنے کے الزامات کی مار میں آنے والوں کی نذر کیا جا سکتا ہے ۔ یقینا نہیں ۔ ہرگز نہیں۔