چمکتی دمکتی دنیا سے پارلیمنٹ تک

July 18, 2018

کہتے ہیں ہر شخص پیدائشی اداکار ہوتا ہے اور وہ موقع محل کی مناسبت سے اپنےمخفی جوہر سامنے لاتاہے۔ 17ویں صدی میں برطانیہ کے گلوب پلئیرز تھیٹر کے اداکار اورڈرامہ نگار ولیم شیکسپئر نے ایک موقع پرکہا تھا کہ ’’دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اس کے کردار‘‘۔وقت گزرنے کے ساتھ ولیم شیکسپیئر کا مقولہ اپنی جگہ درست ثابت ہوااور روئے زمین کے اسٹیج کا ہرشخص اداکاری کرتا نظر آتا ہے۔ ان ہی میں سے کچھ اداکار جب تھیٹر اور فلم و ٹی وی کی چھوٹی بڑی اسکرین پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں تو شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اداکاری اور سیاست کا ایک دوسرے کے ساتھ ازلی رشتہ ہے۔ دنیا کے بے شمار اداکار شوبز سے فراغت پانے کے بعدسیاست دان بن گئے ۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی اداکارفلم نگری اور شوبز کی دنیا پرحکم رانی کرتے رہے، ان شعبوں سے ریٹائرمنٹ کے بعدملکی سیاست میں آگئے اور رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد وزیریا مشیرمنتخب ہوگئے جب کہ امریکا کے ایک اداکار رونالڈ ریگن،منصب صدارت پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ایسے ہی چند اداکاروں کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

مہناز رفیع

مہنازرفیع نےپاکستان ٹیلی ویژن کے آغاز میں شوبز کی دنیا میں قدم رکھا اور ایک سو سے زیادہ ڈراموں میں اداکاری کےجوہر دکھائے۔ان کے والدچوہدری محمد رفیع،آل انڈیا مسلم لیگ اُترپردیش(یو-پی) شاخ کے جوائنٹ سیکرٹری ، تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، شاید یہ انہی کی تربیت کا اثر تھا کہ مہناز رفیع شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرکے سیاست میں آگئیںاور انہوں نے70کے عشرے میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کرکے عملی سیاست کا آغاز کیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں مہناز رفیع کئی بارجیل گئیں، لیکن انہوں نے جیل کی سختیوں سے گھبرا کر اپنے سیاسی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔2000ء میں وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوگئیں اور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوکر قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ترقی خواتین کی چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔

مہتاب اکبر راشدی

سندھ کے علاقے نوڈیرو سے تعلق رکھنے والی مہتاب اکبر راشدی نے دس سال کی عمر میں بہ طور چائلڈ اسٹارریڈیو پاکستان حیدرآباد سے، مہتاب چنہ کے نام سےشو بز کی دنیا میں قدم رکھا ۔جب کراچی میں پی ٹی وی سینٹر قائم ہوا تو مہتاب نے بچوں کاپہلا کوئزشوکیا۔ اس کے بعد سندھی پروگرام ’’روشن تارہ‘‘کی میزبانی کی، بعد ازاں پروگرام’’موتین مالا‘‘ پیش کرتی رہیں۔1977ء میںجنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد وفاقی وزارت اطلاعات و نشرت کے توسط سےپاکستان ٹیلی ویژن کی تمام میزبان خواتین اور نیوز کاسٹرز کوپروگرام کے دوران ڈوپٹہ اوڑھنے کے احکامات جاری کیے۔مہتاب راشدی نے اس حکم کی تعمیل سےانکار کردیاتو انہیں سبک دوش کردیا گیا۔غلام اسحاق خان کےقائم مقام صدر بننے کے بعد وہ دوبارہ پی ٹی وی سے منسلک ہوگئیں اور 88ءکے انتخابات میںالیکشن ٹرانسمیشن کی ۔ 2013ء میں وہ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) میں شامل ہوگئیں اورعام انتخابات میںسندھ اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2018 کے انتخابات میں وہ نیشنل اسمبلی کے حلقہ 204سے فریال تالپور کے مقابلے میں مسلم لیگ فنکشنل کی امیدوار ہیں۔ 14 اگست 2003ء کوانہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا تھا۔

خوش بخت شجاعت

خوش بخت شجاعت کا پاکستان ٹیلی ویژن میں ایک نام ہے۔ 70سے 80کے عشرے کے دوران وہ پاکستان ٹیلی ویژن میں اینکر پرسن اور میزبان کے طور پرچھائی رہیں۔ 2007ء میں وہ متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہوئیں اور 2008ء کے عام انتخابات میں این اے ۔250سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2013ء میںاسی حلقے سے دوبارہ الیکشن لڑا لیکن اس مرتبہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارسے شکست کھا گئیں۔ 2015ء میں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کی حیثیت سےسینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں ۔

فوزیہ وہاب

1991۔92میں پی ٹی وی کی ڈرامہ سیریل ’’کہر‘‘ سے فنی کیریئر کا آغاز کرنے والی مرحومہ فوزیہ وہاب، صحافی اورپی ٹی وی کے اینکر پرسن ، وہاب صدیقی کی بیوہ تھیں۔ 1993میں شوہر کی وفات کے بعد اداکاری کو خیرباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ 1997 کے عام انتخابات میں انہوں نے پارٹی ٹکٹ پر این اے ۔ 193سے الیکشن لڑا لیکن ناکام رہیں۔2002کے عام انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں۔ وہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پرائیویٹائزیشن اوراقتصادی امور کے ساتھ پارلیمنٹ کی فائنانس کمیٹی کے سینئر رکن کے طوربھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ 2008کے انتخابات میں دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں ۔18مارچ 2009میں سابق صدر آصف علی زرداری نےفوزیہ وہاب کوپاکستان پیپلز پارٹی کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرکیا۔ان کے سیاسی سفر کا اختتام 17جون 2012کو ان کی وفات کےساتھ ہوا۔

شازیہ مری

شازیہ مری سندھ کے ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کے دادا حاجی علی محمد مری قیام پاکستان سے قبل سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے۔ان کے والد عطا محمد مری سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جب کہ والدہ پروین عطامری ،ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں۔شازیہ مری نے حصول علم کے بعد عملی زندگی کی ابتدا ءشوبز سے کی اورایک پرائیوٹ چینل میں میزبان اور اینکر پرسن کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔شوبز کو خیرباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرکےسیاسی زندگی کا آغاز کیا۔2002میں سانگھڑ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیابی کے بعد انہیں پانی وبجلی کا صوبائی وزیر بنادیاگیا۔2008 کے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی حلقہ 133 سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئیں اور 2008 سے 2010 تک صوبائی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔2012 میںانہوں نےاسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا اورضمنی انتخابات میں مخصوص نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔2013 میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر این اے حلقہ 235 سے جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ہار گئیں۔بعد ازاں انہوں نے دھاندلی کو جواز بناکرالیکشن کمیشن میں اپیل دائر کی اور اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں وہ جولائی 2013 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں بھی وہ پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد ہوئی ہیں۔

شرمیلا فاروقی

شرمیلا فاروقی نے پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک ڈرامہ سیریل ’’پانچواں‘‘ موسم میں مرکزی کردار ادا کرکے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا لیکن یہ ان کا پہلا اور آخری ڈرامہ ثابت ہوا۔نواز شریف کے دور حکومت میںبھٹو خاندان سے قرابت داری کی وجہ سے ان کے خاندان کو انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہوناپڑا ۔ شرمیلا فاروقی نے بھی اپنی والدہ کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ رہائی کے بعد وہ سیاست میں آگئیں اور پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرکے ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کیا۔ 2008ء سے 2011 تک وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر رہیں۔ چند سال قبل وہ رشتہ ازواج میں منسلک ہوگئیں۔

محمد علی

’’شہنشاہ جذبات‘‘ کے لقب سے معروف فلم ایکٹر محمد علی کا فلمی کیرئیر تین عشرے سے زیادہ عرصے پر محیط رہا۔فلموں کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی اسٹیج پر بھی جذباتی اداکاری کے مظاہرے کرتے رہے۔ 19؍اپریل 1931ءکو بھارت کے شہر رام پور میںپیدا ہونے والے محمد علی 1943ء میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے ملتان کے قصبے ’’گڑمنڈی‘‘ آگئے۔ ان کے زیادہ تر عزیز و اقارب حیدرآباد میں مقیم تھے، اس لیے علی کے والدین بھی وہیں منتقل ہوگئے۔ معاشی کسمپرسی کی وجہ سے انہیں ملازمت تلاش کرنا پڑی۔ بڑے بھائی ارشاد علی کی مدد سے انہوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بہ طور صداکار، شوبز کیریئر کی ابتدا کی۔ 1962ء میںانہوں نے فضل کریم فضلی کی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ سےفلمی زندگی کا آغاز کیا۔1974ء میںلاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر سلطنت آف اومان کے سربراہ سلطان قابوس بن سعید اور سعودی عرب کے فرماں روا، شاہ فیصل نےاداکار محمد علی کی رہائش گاہ پر قیام کیا تھا۔ اس موقع پر سلطان قابوس نے انہیں اپنے ملک کے لیے ’’غیر سرکاری سفیر‘‘ مقرر کیا اور تعریفی شیلڈ دی جب کہ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے ’’پہلوی ایوارڈ‘‘ دیا۔ جولائی 1977ء میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر جب جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو اداکار محمد علی ضیاء مخالف تحریک میں سرگرم رہے، جس کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ رہائی پانےکے بعد ان کے جنرل ضیاء الحق سے مراسم میں بہتری آگئی اور وہ 1983میں ان کے ہمراہ بھارت کے دورے پر بھی گئے۔1984ء میں ان کی فنکارانہ خدمات پر جنرل ضیاء الحق نے انہیں تمغہ حسن کارکردگی اور ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز، ستارہ امتیاز سے نوازا۔ 1985ء میں جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو محمد علی ان کی کابینہ میں مشیر ثقافت مقرر ہوئے۔

سید کمال

سید کمال کا شمار بھی ملک کےان اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اداکاری کے ساتھ سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی۔ کمال نےفلمی زندگی کا آغاز ممبئی کی فلم نگری سے کیا ۔1957ء میں وہ پاکستان آگئے،فلمی کہانی نویس علی سفیان آفاقی کی کوششوں سے شباب کیرانوی نے انہیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک ‘‘ میں ہیرو کاسٹ کرلیا ۔کمال نے 2002ء تک سے زائد اردو او ر پنجابی فلمو ں کے علاوہ پاکستان ٹیلیویژن کے پروگرام ’’کمال کا شو‘‘ کی میزبانی ۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں کراچی کے حلقے این اے 246 سے حصہ لیا لیکنناکام رہے۔ان کا انتخابی نشان ’’مٹکا‘‘ تھا۔وہ خود تو عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکے لیکن ’’کمال کا مٹکا‘‘ بہت مقبول ہوا۔الیکشن کے دوران انہیں جس قسم کے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے ’’فلم سیاست ‘‘ بنا کر اس کی عکاسی کی۔

طارق عزیز

’’ٹھاہ‘‘ کا نعرہ 70سے90کے عشروں کے دوران خاصا مقبول رہا ہے اور بعض جلسوں اور جلوسوں میں اس کی گھن گرج اب بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ یہ نعر ہ سب سے پہلے طارق عزیز نے لگایا تھا۔طارق عزیزنے شوبز کے سفرکا آغاز 60 کے عشرے میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔نومبر 1964ء میں جب پاکستان ٹیلی ویژن نے لاہور سے نشریات کا آغاز کیا تو طارق عزیز نےپی ٹی وی کےپہلے اناؤنسر اور نیوز کاسٹر کے طور پر کام شروع کیا۔لاہور سینٹر نے طارق عزیز کی میزبانی میںمعلومات عامہ کا پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ کے نام سے شروع کیا ۔1960 سے 1970تک وہ فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہےاور اس دوران انہوں نے ایک درجن سے زائدفلموں میں کام کیا ۔1969ء میںجنرل ایوب خان کی حکومت کے آخری ایام میں جب ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما،مولانا عبدالحمید بھاشانی نے نیشنل عوامی پارٹی (مارکسسٹ) کے نام سےسیاسی جماعت بنائی، مغربی پاکستان سے طارق عزیز اس کے بنیادی رکن بنے۔پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کے پہلے جلسہ عام میں طارق عزیز نے اپنی اداکارانہ اور صداکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے بندوق کے صوتی اثرات ’’ٹھاہ‘‘ کو ایک نعرے کی صورت میں ڈھال دیا۔آج بھی ان سیاسی جلسوں و جلوسوں میں جہاں بندوق کے دھماکے نہیں ہوتے وہاں ’’ٹھاہ‘‘ کے نعرے کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔ 1970میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1996ء میںوہ پاکستان مسلم لیگ (ن)میں شامل ہوگئے اور 1997کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پرویز مشرف کے دور میںمسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیارکرلی، لیکن طویل عرصے سے وہ سیاسی افق سے غائب ہیں۔

عامر لیاقت حسین

عامر لیاقت حسین بھی شوبز کی دنیا سے سیاست میں آئے۔ ان کے نانا سردار علی صابری کا شمار برصغیر کےنام ورصحافیوں میں ہوتا ہے۔سردار علی صابری پہلے اخبار نویس تھے جنہوں نے بانی پاکستان کے لئے ’’قائداعظم‘‘ کا لقب استعمال کیا۔ان کی والدہ محمودہ سلطانہ 1981 سے 1985 تک جنرل ضیاء الحق کی وفاقی مجلس شوریٰ کی رکن رہیں جب کہ والد شیخ لیاقت حسین نے 80کے عشرے میں مولانا یوسف میمن کے ساتھ جناح مسلم لیگ بنائی لیکن بعد میں متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہوگئے اور 1997 میںمتحدہ کے ٹکٹ پررکن قومی اسمبلی کے منتخب ہوئے ۔عامرلیاقت حسین نےشو بز کی ابتدا ایف ایم 101 سے کی جس کے بعد انہیں پاکستان ٹیلی ویژن میں ملازمت مل گئی۔ 2002 میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی اور اسی سال عام انتخابات میں حصہ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور بنے۔2007 میں متحدہ قومی موومنٹ نے، ان سے وزارت اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ لینے کے ساتھ پارٹی رکنیت بھی ختم کردی گئی،جو2016 میں بحال کردی گئی۔ مارچ 2018 میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔2018 انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہےہیں۔

شفیع محمد شاہ

شوبز کی معروف شخصیت شفیع محمد شاہ مرحوم کا تعلق نوشہرو فیروزکے علاقے ’’کنڈیارو‘‘ کے ایک معزز گھرانے سے تھا ۔ وہ 1949 میںکراچی کے علاقے ’’رام سوامی‘‘میں پیدا ہوئے۔ اپنے فنی سفر کا آغاز،ریڈیو پاکستان حیدرآبادسے کیااور کراچی اسٹیشن سے بھی کچھ عرصہ صداکاری کی۔1970میں پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریل ’’تیسرا کنارہ‘‘ سے اداکاری کی ابتدا کی۔ 35 سالہ شوبز کی زندگی کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور پیپلز پارٹی کلچرل کمیٹی کے رکن بن گئے۔2002 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرکراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ 253سے الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔

مصطفیٰ قریشی

اداکار مصطفیٰ قریشی نے 1960ء سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ 1967ء میں’’ لاکھوں میں ایک ‘‘ان کی پہلی فلم تھی اور 2016 تک تقریباً 500اردو، پنجابی اور سندھی فلموںمیں اداکاری کے جوہر دکھائے۔وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور پیپلز پارٹی کلچرل ونگ کے صدربن گئے۔3؍جون 2018ء کو انہوں نے پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔

ابرارالحق

1995ءمیں ’’کنے کنے جانا بلودے گھر‘‘ سے گلوکاری کا آغاز کرنے والے ابرار الحق نے دسمبر 2011 میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔2003ء میں انہوں نے فلاحی منصوبوں کے لئے سہارا ٹرسٹ قائم کیا جس کے زیرانتظام نارووال میں ’’صغرا شفیع میڈیکل کمپلیکس‘‘ کے نام سے اسپتال بنایا۔2016میں نارووال میں سہارا میڈیکل کالج قائم کیا۔2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔2013 میں این اے 117 نارووال III سے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار احسن اقبال کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا لیکن وہ ہار گئے۔2018ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی حلقہ 78 نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، اس مرتبہ بھی ان کے سیاسی حریف احسن اقبال ہی ہیں۔ وہ تحریک انصاف میں بین الاقوامی تعلقات سے متعلق شعبے میں سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر این اے حلقہ 235 سے جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ہار گئیں۔بعد ازاں انہوں نے دھاندلی کو جواز بناکرالیکشن کمیشن میں اپیل دائر کی اور اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں وہ جولائی 2013 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں بھی وہ پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد ہوئی ہیں۔

قیصر خان نظامانی

1990 میں شوبز کیریئر کا آغاز اداکار شفیع محمد شاہ کےساتھ سندھی ڈرامے سے کیا۔ 1994 میں انہوں نے ساحرہ کاظمی کے اردو ڈرامے ’’تپش‘‘ سے شہرت حاصل کی۔1995میں اپنا پروڈکشن ہائوس قائم کیا جس کے بینر تلے کئی سیریلز پروڈیوس کیں۔2002 میں انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام رہے۔25جولائی 2018 کے الیکشن میں وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر این اے 245سے حصہ لے رہے ہیں۔

کنول نعمان

ملتان سے تعلق رکھنے والی کنول نعمان نے1987 میں شو بز کی دنیا میں قدم رکھا۔ان کا پہلا ٹی وی ڈرامہ ’’کھوجی‘‘ تھا۔انہوں نے ایک میڈیا ہائوس بھی قائم کیا ہوا ہے۔2008 میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔2013 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوکر اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خصوصی تعلیم اور خانگی مسائل سے متعلق رکن منتخب ہوئیں۔فروری 2016 میں انہیں برین ہیمرج ہوا ۔15 اپریل 2016 کو وہ صحت یاب ہوکرصوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئیں۔مئی2018ء میں انہوں نےاسمبلی اور پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔

مسرت شاہین

فلم نگری سے سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے والی مسرت شاہین کو 1974 میں والد کے انتقال کے بعد بھائی بہنوں کا پیٹ پالنے کے لئے ملازمت کرنا پڑی۔اسی دوران ایک پنجابی فلم میں انہیں چھوٹا سا کردار ملا۔سلمیٰ ممتاز ان کی اداکاری سے خاصی متاثر ہوئیں اور ان کی کوششوںسے مسرت شاہین کو ’’دلہن اک رات‘‘ میں سپورٹنگ رول مل گیا۔اس فلم کی کامیابی نے مسرت شاہین کے لئےفلم نگری کے دروازےکھول دیئے۔انہوں نے 200 سے زائد اردو،پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کیا، اور فلموں سے کنارہ کشی کے بعدسیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ 1997میں پاکستان تحریک مساوات کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی اور قومی اسمبلی کے حلقہ این۔ اے 24ڈیرہ اسمعٰیل خان سےمولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں انتخاب لڑا لیکن ہار گئیں۔ 2013میں وہ دوبارہ اسی حلقے سے مولانا فضل الرحمن کے خلاف میدان میں اتریںلیکن اس بار بھی شکست کھائی ۔2013میں جب پاکستان عوامی تحریک نےبرسراقتدار حکم رانوں کے خلاف’’جہاد‘‘ کا اعلان کیا تو انہوں نےتحریک مساوات کی سربراہ کی حیثیت سےاپنی پارٹی کوڈاکٹرطاہرالقادری کی پارٹی میں ضم کرنے کا اعلان کیا ۔جولائی 2015میںمسرت شاہین نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کی کوشش کی، تاہم پی ٹی آئی کے قائدین نے ان کی شمولیت کی مخالفت کی، جس کی وجہ سےعمران خان نے اُن کے رابطوں کے جواب میں خاموشی اختیارکرلی۔آج کل وہ سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں۔

گلوکار جواد احمد

’’میں تینوں سمجھاواں کی‘‘ سے شہرت پانے والے گلوکار جواد احمد بھی سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ 25؍جولائی 2018ء کے انتخابات میںان کا مقابلہ ملک کی تین بلند قامت سیاسی شخصیات سے ہے۔ وہ پوپ میوزیکل بینڈ ’’جیوپیٹر‘‘ میں شامل تھے لیکن مذکورہ بینڈ کی بندش کے بعد انہوں نے انفرادی حیثیت میں گلوکاری اور موسیقی کے میدان میںقدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔جواد مختلف ٹی وی چینلز پر پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے ۔بھارت اور پاکستان کی دو فلموں میں موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ 2006ء میں ان کی فنی خدمات پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ سابقہ حکومت میں وہ کچھ عرصے یونیسف میں پولیو کے خاتمے کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ 2017میں جواد احمد نے ’’پاکستان برابری پارٹی ‘‘ کے نام سے جماعت بنا کر اسے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹر کرایا۔حالیہ الیکشن میںوہ لاہوراور کراچی کے تین حلقوں سے عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کا انتخابی نعرہ، ’’تعلیم سب کے لیے ہے‘‘۔

ساجد حسن

پاکستان شوبز انڈسٹری کے سینئر اداکار ساجد حسن نے بھی اپنی اہلیہ اور بھائی کے ہم راہ 2اپریل 2018کوپاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ انہوںنے شوبز کیریئر کا آغاز 1980میں کیا اور آج بھی مختلف ٹی وی چینلز کے ڈراموں میں کام کررہے ہیں۔حالیہ انتخابات میںوہ این اے ۔256سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔

زارا اکبر

سرگودھا میں پیدا ہونے والی زارا اکبر نے چائلڈ اسٹار کے طور پر پی ٹی وی کے ’’مارننگ شو‘‘ سے اپنے فنی کیریئر کاآغاز کیا۔ 1990میں انہوں نے بہ طور اداکارہ پہلے پی ٹی وی ڈرامے میں کام کیا۔1994ء میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی۔ 2014میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئیں۔نومبر 2015ء میں انہوں نے حکم ران جماعت مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی، جس کے بعد سے وہ مسلم لیگ ن کلچرل ونگ پنجاب کی نائب صدر ہیں۔

دنیا کے کئی دیگر ممالک میںبھی فلمی اداکارسیاست میں آئے اور پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوکر مختلف عہدوں پربراجمان ہوگئے۔ امریکا کے صدررونالڈ ریگن کی عملی زندگی کا آغازبھی اداکار کے طور پر ہوا تھا، بعدازاں وہ دومرتبہ ملک کے سربراہ بنے۔ ایسے ہی چند اداکاروں کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

رونالڈ ریگن

ریاست ہائے متحدہ امریکا کے40ویں صدر، رونالڈ ولسن ریگن ہالی ووڈ کےمعروف اداکار تھے۔انہوں نے اپنی فنکارانہ زندگی کی ابتداء 1937ء میں ہالی ووڈ سے ایک فلمی اداکار کے طور پر کی اور تقریباً دو درجن سے زائدفلموں میں کام کیا۔1962میں ڈیموکریٹ اور 1964میں ری پبلیکن پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1966 اور 1974میں دو مرتبہ کیلی فورنیا کے گورنر منتخب ہوئے۔1981ء اور 1989میں صدارتی انتخابات میں حصہ لے کرامریکا کے دو بارصدارتی منصب پر فائز رہے۔

جے للیتا

بھارتی ریاست میسور سے تعلق رکھنے والی جے للیتا نے فلمی کیریئر کا آغاز1961ء میں کیا اور 1967تک تقریباًً 150فلموں میں کام کیا۔ فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعدوہ تامل ناڈو کی مقامی سیاسی جماعت میںشامل ہوگئیںاور لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لیتی رہیں۔وہ بھارت کی واحد فلمی شخصیت ہیں جو 1991ء سے 2016 تک 6مرتبہ تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں۔

امیتابھ بچن

امیتابھ بچن11؍اکتوبر 1942ء میں الہٰ باد، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ان کے فلمی سفر کا آغاز 1969ء میں ہوا۔ گاندھی خاندان سے ان کی دیرینہ قرابت داری تھی۔ 1984ء میںاداکاری ترک کرکےانہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور بچپن کے دوست راجیو گاندھی کی حمایت میں الہ باد کی لوک سبھا سے سابق وزیر اعلٰی اترپردیش ایچ۔ این۔ بہوگونا کےمقابل لیکشن لڑااور کامیابی حاصل کی،اس کے بعد سماج وادی جماعت میں شامل ہوگئے، ان کی سیاسی زندگی صرف تین سال کے عرصے پر محیط رہی ، بعدازاںفلم نگری میں واپس آگئے اور اب تک اس سے وابستہ ہیں۔

سنیل دت

سنیل دت نےشوبز کیریئر کا آغاز 50کے عشرے میں ریڈیو سیلون سے کیا۔ 1955ء میں انہوں نےفلموں میں اداکاری شروع کی ۔1957ء میں ’’مدر انڈیا‘‘ سے شہرت حاصل کی۔ 1982ء میں مہاراشٹرا کی حکومت نے انہیں ممبئی کا شیرف بنادیا۔ 1990ء میںاداکاری سے ریٹائر ہوکر وہ سیاست میں آگئے اور 5مرتبہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 2004میں وہ من موہن سنگھ کی کابینہ میںا مور نوجوانان اور کھیلوں کے مرکزی وزیر رہے۔

شترو گھن سنہا

پٹنہ( بہار) میں جنم لینے والے شتروگھن سنہا نے 1969سے 2013تک کئی درجن فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے سیاست میں آنے کے بعد ایک مرتبہ لوک سبھا اور دو مرتبہ راجیہ سھا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ 2003 سے 2004تک وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں کیبنٹ منسٹر بنے۔ 2006میں انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی میں کلچرل اور آرٹس کے شعبہ کی سربراہی سونپی گئی۔

بھارت کی ان فلمی شخصیات کے علاوہ گووندا، ریکھا، راجیش کھنہ، شبانہ اعظمی، جیا بچن، پون کلیان، ونود کھنہ، کرن کھیر، راج ببر، ہیمامالنی ، چرن جیوی، جیا پرادا اور سمرتی ایرانی نے بھی فلم نگری سے سیاست کی جانب سفر کیا ۔